Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

دعائیں اللہ تعالی قبول کیوں نہیں فرماتا؟


وبائی آفت سے بچاؤ کے لیے 1.7 بلین مسلمان اور 6 ارب غیر مسلم جن میں خدا کے ماننے والووں کی کثیر تعداد ہے دعائیں مانگ رہے ہیں مگر بظاھر قبولیت محسسوس نہیں ہو رہی- آخر اس کی کیا وجہ ہے ؟
اہل ایمان کو دعا مانگنے کے آداب ، اور احکام  کو مد نظر رکھنا  ضروری ہے، دعائیہ الفاظ اور، اور کچھ رکاوٹیں، اور موانع ہیں جنکی وجہ سے دعا قبول نہیں ہوتی، چنانچہ ان اشیاء کا دعا مانگنے والے، اور دعائیہ الفاظ سے دور ہونا ضروری، لہذا جوں ہی یہ تمام اشیاء موجود ہونگی، دعا قبول ہوجائے گی۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "دعائیں، اور تعوّذات[ایسی دعائیں جن میں اللہ کی پناہ حاصل کی جائے] کی حیثیت اسلحہ کی طرح ہے، اور اسلحے کی کارکردگی اسلحہ چلانے والے پر منحصر ہوتی ہے، صرف اسلحے کی تیزی کارگر ثابت نہیں ہوتی، چنانچہ اسلحہ مکمل اور ہر قسم کے عیب سے پاک ہو، اور اسلحہ چلانے والے بازو میں قوت ہو، اور درمیان میں کوئی رکاوٹ بھی نہ ہو تو دشمن پر ضرب کاری لگتی ہے، اور ان تینوں اشیاء میں سے کوئی ایک ناپید ہو تو نشانہ متأثر ہوتا ہے"["الداء والدواء " از ابن قیم، صفحہ: 35]

قبولیتِ دعا کیلئے معاون اسباب میں چند یہ اسباب شامل ہیں:
1- دعا میں اخلاص: 
دعا کیلئے اہم اور عظیم ترین ادب ہے، اللہ تعالی نے بھی دعا میں اخلاص پر زور دیتے ہوئے فرمایا: (وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ) ترجمہ: اور عبادت اللہ تعالی کیلئے خالص کرتے ہوئے [دعا میں]اسی کو پکارو۔ الاعراف/29، اور دعا میں اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ : دعا کرنے والا یہ نظریہ رکھے کہ صرف اللہ عز وجل کو ہی پکارا جاسکتا ہے، اور وہی اکیلا تمام ضروریات کو پورا کر سکتا ہے، اور دعا کرتے ہوئے ریا کاری سے گریز کیا جائے۔

2- توبہ ، اور اللہ کی طرف رجوع: 
چونکہ گناہ دعاؤں کی عدمِ قبولیت کیلئے بنیادی سبب ہے، اس لئے دعا مانگنے والے کیلئے ضروری ہے کہ مانگنے سے پہلے گناہوں سے توبہ و استغفار کرے، جیسے کہ اللہ عزو جل نے نوح علیہ السلام کی زبانی فرمایا: 
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا (10) يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا (11) وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا (12)

ترجمہ: [نوح علیہ السلام کہتے ہیں] اور میں نے ان سے کہا کہ اپنے پروردگار سے معافی مانگ لو، بلاشبہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے (10) اللہ تعالی تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا (11) اور تمہاری مال اور اولاد سے مدد کرے گا، تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور نہریں جاری کرے گا ۔ نوح/ 10-12

3- عاجزی، انکساری، خشوع،و خضوع،
قبولیت کی امید اور [دعا مسترد ہونے کا]خوف، حقیقت میں دعا کی روح، دعا کا مقصود ، اور دعا کا مغز ہے: فرمانِ باری تعالی ہے:(
اُدْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
ترجمہ: اپنے رب کو گڑ گڑا کر اور خفیہ طور پر پکارو، بے شک وہ حد سے بڑھنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔ [الاعراف/ 55]

4- دعا الحاح کیساتھ بار بار کی جائی، دعا کرنے میں تنگی، اور سستی کا شکار نہ ہو:
 دو تین بار دعا کرنے سے الحاح ہوجاتا ہے، تین پر اکتفاء کرنا سنت کے مطابق ہوگا، جیسے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تین ، تین باردعا اور استغفار پسند تھی۔ ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

5- خوشحالی کے وقت دعا کرنا، اور آسودگی میں کثرت سے دعائیں مانگنا
اس بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (خوشحالی میں اللہ کو تم یاد رکھو، زبوں حالی میں وہ تمہیں یاد رکھے گا)احمد نے اسے روایت کیا ہے۔

6- اسمائے حسنی
 دعا کی ابتداء اور انتہا میں اللہ تعالی کے اسمائے حسنی، اور صفاتِ باری تعالی کا واسطہ دیا جائے، فرمان باری تعالی ہے:

وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا
 ترجمہ: اور اللہ تعالی کے اچھے اچھے نام ہیں، تم انہی کا واسطہ دیکر اُسے پکارو۔[ الاعراف/ 180]

7- جوامع الکلم، واضح، اور اچھی دعائیں اختیار کی جائیں
 سب سے بہترین دعا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ دعائیں ہیں، ویسے انسان کی ضرورت کے مطابق دیگر دعائیہ الفاظ سے بھی دعا مانگی جاسکتی ہے۔

8.  دعا کے مستحب آداب [یعنی یہ واجب نہیں ہیں]
ان میں یہ بھی شامل ہے کہ : با وضو، قبلہ رُخ ہوکر دعا کریں، ابتدائے دعا میں اللہ تعالی کی حمد وثناء خوانی کریں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھیں، اور دعا کرتے ہوئے ہاتھ اٹھانا بھی جائز ہے۔

9. قبولیتِ دعا کے امکان زیادہ قوی کرنے کیلئے قبولیت کے اوقات، اور مقامات تلاش کریں۔
 دعا کیلئے افضل اوقات میں : فجر سے پہلے سحری کا وقت، رات کی آخری تہائی کا وقت، جمعہ کے دن کے آخری لمحات، بارش ہونے کا وقت، آذان اور اقامت کے درمیان والا وقت۔
اور افضل جگہوں میں تمام مساجد ، اور مسجد الحرام کو خصوصی درجہ حاصل ہے۔

10. حالات جن میں دعاؤں کی قبولیت کے امکانات زیادہ روشن ہوتے ہیں 
مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا، روزہ دار کی دعا، مجبور اور مشکل میں پھنسے ہوئے شخص کی دعا، اور ایک مسلمان کی اپنے بھائی کے حق میں اسکی عدم موجودگی میں دعا کرنا شامل ہے۔

دعا کی قبولیت کے راستے میں بننے والی رکاوٹیں 
ان میں درج ذیل امور شامل ہیں:

1- دعا کرنے کا انداز ہی نامناسب ہو: 
مثال کے طور پر دعا میں زیادتی ہو، یا اللہ عزوجل کیساتھ بے ادبی کی جائے، دعا میں زیادتی سے مراد یہ ہے کہ: اللہ تعالی سے ایسی دعا مانگی جائے جو مانگنا جائز نہیں ہے، جیسے کہ اپنے لئے دائمی دنیاوی زندگی مانگے، یا گناہ اور حرام اشیاء کا سوال کرے، یا کسی کو موت کی بد دعا دے،چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: (بندے کی دعا اس وقت تک قبول ہوتی رہتی ہے، جب تک وہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے)مسلم

2- دعا کرنے والے شخص میں کمزوری 
 اسکا دل اللہ تعالی کی طرف متوجہ نہ ہو، یا پھر اللہ کیساتھ بے ادبی کا انداز اپنائے، مثال کے طور پر: دعا اونچی اونچی آواز سے کرے، یا اللہ سے ایسے مانگے کہ جیسے اُسے اللہ تعالی سے دعا کی قبولیت کیلئے کوئی چاہت ہی نہیں ہے، یا پھر تکلّف کیساتھ الفاظ استعمال کرے، اور معنی مفہوم سے توجہ بالکل ہٹ جائے، یا بناوٹی آہ و بکا اور چیخ و پکار میں مبالغہ کیلئے تکلّف سے کام لے۔

3- دعا کی قبولیت کیلئے کوئی رکاوٹ موجود ہو:
 مثلا اللہ کے حرام کردہ کاموں کا ارتکاب کیا جائے، جیسے کہ: کھانے ، پینے، پہننے، جائے اقامت اور سواری میں حرام مال استعمال ہو، ذریعہ آمدنی حرام کاموں پر مشتمل ہو، دلوں پر گناہوں کا زنگ چڑھا ہوا ہو، دین میں بدعات کا غلبہ ہو، اور قلب پر غفلت کا قبضہ ہو۔

4- حرام کمائی کھانا،قبولیتِ دعا کیلئے سب سے بڑی رکاوٹ ہے
 ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لوگو! بیشک اللہ تعالی پاک ہے، اور پاکیزہ اشیاء ہی قبول کرتا ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے متقی لوگوں کو بھی وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو دیا ، فرمایا: 
يَاأَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ
ترجمہ: اے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ، اور نیک عمل کرو، بیشک تم جو بھی کرتے ہو میں اسکو بخوبی جانتا ہوں۔ [المؤمنون/51]

اور مؤمنین کو فرمایا: 
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ
 ترجمہ:اے ایمان والو! ہم نے جو تم کو پاکیزہ اشیاء عنائت کی ہیں ان میں سے کھاؤ۔[ البقرہ/172]
اسکے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کا ذکر فرمایا: جس کے لمبے سفر کی وجہ سے پراگندہ ، اور گرد و غبار سے اَٹے ہوئے بال ہیں، اپنے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی جانب اٹھا کر کہتا ہے: یا رب! یا رب! اسکا کھانا بھی حرام کا، پینا بھی حرام کا، اسے غذا بھی حرام کی دی گئی، ان تمام اسباب کی وجہ سے اسکی دعا کیسے قبول ہو!!) اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کا ذکر کرتے ہوئے کچھ امور بھی بیان فرمائے، جن سے دعا کی قبولیت کے امکان زیادہ روشن ہوجاتے ہیں، مثلا: کہ وہ مسافر ہے، اللہ کا ہی محتاج ہے، لیکن اسکے باوجود دعا اس لئے قبول نہیں ہوتی کہ اس نے حرام کھایا، اللہ تعالی ہمیں ان سے محفوظ رکھے، اور عافیت نصیب فرمائے۔

5- دعا کی قبولیت کیلئے جلد بازی کرنا، اور مایوس ہوکر دعا ترک کر دینا:
 چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم میں سے کسی کی دعا اس وقت تک قبول کی جاتی ہے جب تک قبولیت دعا کیلئے جلد بازی نہ کرے، اور کہہ دے: "میں نے دعائیں تو بہت کی ہیں، لیکن کوئی قبول ہی نہیں ہوتی")اسے بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔

6- مشیئتِ الہی پر قبولیت دعا کو معلق کرنا: 
مثال کے طور پر یہ کہنا کہ : "یا اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے معاف کردے" بلکہ دعا کرنے والے کو چاہئے کہ وہ پر عزم، کامل کوشش، اور الحاح کیساتھ دعا مانگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (تم میں سے کوئی بھی دعا کرتے ہوئے ہرگز یہ مت کہے کہ : "یا اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے معاف کردے"، "یا اللہ! اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم فرما" بلکہ پختہ عزم کیساتھ مانگے؛ کیونکہ اللہ تعالی کو کوئی بھی مجبور نہیں کرسکتا)بخاری و مسلم

قبولیتِ دعا کیلئے یہ لازمی نہیں کہ ان تمام آداب کو بیک وقت ملحوظِ خاطر رکھے، اور تمام یہ تمام رکاوٹیں بھی نہ ہو، کیونکہ ایسی صورت حال نادر ہی پائی جاتی ہے، لیکن پھر بھی انسان کو اپنی استطاعت کے مطابق ان آداب کو ملحوظِ خاطر رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چاہئے کہ قبولیتِ دعا کی کئی صورتیں ہیں:

• اللہ تعالی بندے کی دعا قبول کرتے ہوئے اسے وہی عنائت کردے جسکی وہ تمنا کرتا ہے۔
• یا پھر اس دعا کے بدلے میں کسی شر کو رفع کردیتا ہے۔
• یا بندے کے حق میں اسکی دعا سے بہتر چیز میسر فرما دیتا ہے۔
• یا اسکی دعا کو قیامت کے دن کیلئے ذخیرہ کردیتا ہے، جہاں پر انسان کو اِسکی انتہائی ضرورت ہوگی۔
واللہ اعلم . ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد
https://islamqa.info/ur/answers/5113/
----------------

وبائی آفت اور ہمارا رویہ 

یاد رکھیں ۔۔۔ اللہ کو ہماری ضرورت نہیں ہم کو اس کی ضرورت ہے 
قرآن زندگی کی حفاظت پر زور دیتا ہے ۔۔
ایک زندگی بچانا انسانیت بچانا ہے ۔(المائیدہ 5:32 )
 آپنے آپ کو قتل کرنے سے منع کرتا ہے ۔۔ (النسا 29)

روایات وبائی علاقہ کی طرف اندر باہر حرکت سے منع فرماتی ہیں ۔۔۔۔۔۔  

عن سعد رضی اللّٰہ عنہ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: إذا سمعتم بالطاعون بأرض فلا تدخلوہا وإذا وقع بأرض وأنتم بہا فلا تخرجوا منہا.(رقم۵۳۹۶)

''حضرت سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم کسی علاقے میں طاعون کے بارے میں سنو تو اس میں نہ جاؤ اور اگر کسی علاقے میں طاعون پھیل جائے اور تم اس میں ہو تو اس سے نہ نکلو۔''

اس حدیث کو بخاری اور مسلم، دونوں کی تصحیح حاصل ہے۔ لہٰذا سند کے اعتبار سے یہ ایک قوی حدیث ہے۔ 
 بخاری میں ہے:
عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ یقول: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لاعدوی، ولاطیرۃ، ولاہامۃ ولاصفر. وفر من المجذوم کما تفر من الأسد.(رقم۵۳۸۰)

''حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نہ متعدی بیماری سے بیماری ہوتی ہے۔ نہ بدفال کوئی چیز ہے۔نہ مقتول کی روح پیاسا پرندہ بنتی ہے اور نہ پیٹ میں بھوک لگانے کا کوئی جانور ہے۔ مجذوم سے ایسے بھاگو، جیسے شیر سے بھاگتے ہو۔''

مسلم میں اس روایت کی پہلی بات پر ایک سوال اور آپ کا جواب بھی نقل ہوا ہے:

فقال أعرابی: یا رسول اللّٰہ، فما بال الإبل تکون فی الرمل کأنہا الظباء. فیجئ البعیر الأجرب. فیدخل فیہا. فیجربہا کلہا. قال: من أعدی الأول.(رقم۲۲۲۰)

'' (آپ کی بات سن کر ) ایک بدو نے پوچھا:ان اونٹوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو صحرا میں بالکل ہرنوں کی طرح صاف ہوتے ہیں۔ پھر ایک خارش زدہ اونٹ آتا ہے اور ان میں شامل ہو جاتا ہے، اس طرح سب کو خارش زدہ کر دیتا ہے۔ آپ نے کہا: یہ بتاؤ، پہلے کو کس نے خارش لگائی تھی؟''
اس سوال جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ متعدی بیماری بھی اللہ ہی کے اذن سے کسی کو لگتی ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں شام میں طاعون کی وبا پھیلی ۔۔
أتَفِرُّ مِنْ قَدْرِ اﷲِ 
’’کیا آپ تقدیر سے بھاگتے ہیں۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب دیا
أفِرُّ مِنْ قَضَاء اﷲ اِلٰی قَدْرِ اﷲِ.
ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 283
’’میں اﷲ کی قضا سے اس کی قدر کی طرف بھاگتا ہوں۔‘‘

 ’’اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور حاکموں کی جو تم میں سے ہوں۔۔۔  (النساء:۵۹) 

ہم کو جذبات سے نہیں کام لینا ۔۔۔ حکومت کی اطاعت کرنا ہے اس آفت کے مقابلہ کے لئیے ۔۔ شہر بند کرے lockdown , مساجد بند کرے یا طواف کعبہ ۔۔ انسانی زندگی بچانا پہلے ضروری ہے ۔۔۔  اللہ کا حکم ہے ۔۔ جذبات میں اللہ کے حکم کے خلاف مت جاوو 
اللہ ہمارا محتاج نہیں ہم اس کے محتاج ہیں ۔۔
 دعا کرو ۔۔ ذکر کرو ۔۔۔  ۔۔ احتیاط کرو ۔۔ عقل سے کام لو ۔صدقہ کرو 
~~~~~~~~~
صدقہ --- زکات 
الخدمت فاونڈیشن- کرونا وائرس سے متاثرین کی امداد
برائےعطیات۔۔رابطہ ۔۔۔ 03041114222
بنک اکاونٹ میں براہ راست جمع کروا سکتے ہیں ۔۔۔
Acc Title: Al-khidmat foundation Pakistan

Bank name: Meezan Bank Limited Johar Town Br. LHR

Branch code: 0214

Acc #: 0101095120
IBAN: PK94MEZN0002140101095120
Swift code: MEZNPKKA
...................
Public Service Message by :
ہر مشکل ہمیں دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے کا موقع فراہم کرتی ہے!
*اخوت* نے معاشرے کے پسماندہ طبقات کی مدد کے لئے *"کورونا امدادی فنڈ"* قائم کیا ہے۔
پاکستان مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے ہمیشہ لچکدار رہا ہے اور COVID-19 کی عالمی وبائی حالت کے دوران بھی ایسا ہی ہے۔
الحمد اللہ ، اخوت دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مائکرو فنانس آرگنائزیشن ہے۔
Introduction Akhuwat
https://akhuwat.org.pk/about-us/our-journey/
*اخوت* نے معاشرے کے پسماندہ طبقات کی مدد کے لئے *"کورونا امدادی فنڈ"* قائم کیا ہے۔
*اخوت کورونا امدادی فنڈ فراہم کرے گا:*
1.کسی بھی فرد کے لئے راشن پیکج جو کورونا وائرس کی وجہ سے اپنی معاش کا ذریعہ کھو بیٹھا ہے۔
2. ان افراد کے لواحقین کے لئے راشن پیکجز جنہوں نے کورونا وائرس کے لئے مثبت تجربہ کیا ہے۔
3. مستحق افراد کے لئے مفت کورونا وائرس کی جانچ کی خدمت۔
4. تمام مستحق افراد کے لئے پیشہ ورانہ مشورتی ہیلپ لائن جو کورونا وائرس کے لئے مدد لیتے ہیں۔
ان لائین ڈونیشن:
Bank Account Details :
اخوت: 19 سوک سینٹر ، سیکٹر A2 ، ٹاؤن شپ ،
لاہور ، پاکستان
042-111-448-464
info@akhuwat.org.pk
...................
Public Service Message by :
--------------------
اسلام دین کامل کو واپسی ....
"اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان طریقوں  کو واضح کرے اور انہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحاء کرتے تھے- وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجّہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے ، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی- ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ. اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے." (قرآن  4:26,27,28]
اسلام کی پہلی صدی، دین کامل کا عروج کا زمانہ تھا ، خلفاء راشدین اور اصحابہ اکرام، الله کی رسی قرآن کو مضبوطی سے پکڑ کر اس پر کاربند تھے ... پہلی صدی حجرہ کے بعد جب صحابہ اکرام بھی دنیا سے چلے گیے تو ایک دوسرے دور کا آغاز ہوا ... الله کی رسی قرآن کو بتدریج پس پشت ڈال کر تلاوت تک محدود کر دیا ...اور مشرکوں کی طرح فرقہ واریت اختیار کرکہ دین کامل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے-  ہمارے مسائل کا حل پہلی صدی کے اسلام دین کامل کو واپسی میں ہے  .. مگر کیسے >>>>>>

اگر اللہ کو منظور ہوتا تو ان سب کو راہ راست پر جمع کر دیتا


ہدایت  معجزوں یا زبردستی سے نہیں، دلیل ، دعوه عقل و دانش سے ..  اگر اللہ کو منظور ہوتا تو ان سب   کو راہ راست پر  جمع کر دیتا...

وَ اِنۡ کَانَ  کَبُرَ عَلَیۡکَ اِعۡرَاضُہُمۡ فَاِنِ اسۡتَطَعۡتَ اَنۡ تَبۡتَغِیَ نَفَقًا فِی الۡاَرۡضِ اَوۡ  سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ  فَتَاۡتِیَہُمۡ  بِاٰیَۃٍ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ  لَجَمَعَہُمۡ عَلَی الۡہُدٰی فَلَا تَکُوۡنَنَّ مِنَ  الۡجٰہِلِیۡنَ ﴿۳۵﴾   
            
اور اگر آپ کو ان کا اعراض گراں گزرتا ہے تو اگر آپ کو یہ قدرت ہے کہ زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی سیڑھی ڈھونڈ لو اور پھر کوئی معجزہ لے آؤ توکرو  اور اگر اللہ کو منظور ہوتا تو ان سب   کو راہ راست پر  جمع کر دیتا  سو آپ نادانوں میں سے نہ ہو جایئے  ۔ [ سورة الأنعام 6  آیت: 35]

 And if their evasion is difficult for you, then if you are able to seek a tunnel into the earth or a stairway into the sky to bring them a sign, [then do so]. But if Allah had willed, He would have united them upon guidance. So never be of the ignorant. [ Surat ul Anaam: 6 Verse: 35 ..[....]

نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دیکھتے تھے کہ اس قوم کو سمجھاتے سمجھاتے مدتیں گزر گئی ہیں اور کسی طرح یہ راستی پر نہیں آتی تو بسا اوقات آپ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی تھی کہ کاش کوئی نشانی خدا کی طرف سے ایسی ظاہر ہو جس سے ان لوگوں کا کفر ٹوٹے اور یہ میری صداقت تسلیم کرلیں ۔ 
آپ کی اسی خواہش کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ بے صبری سے کام نہ لو ۔ جس ڈھنگ اور جس ترتیب و تدریج سے ہم اس کام کو چلوا رہے ہیں اسی پر صبر کے ساتھ چلے جاؤ ۔
 معجزوں سے کام لینا ہوتا تو کیا ہم خود نہ لے سکتے تھے؟
 مگر ہم جانتے ہیں کہ جس فکری و اخلاقی انقلاب اور جس مدنیت صالحہ کی تعمیر کے کام پر تم مامور کیے گئے ہو اسے کامیابی کی منزل تک پہنچانے کا صحیح راستہ یہ نہیں ہے ۔ تاہم اگر لوگوں کے موجودہ جمود اور ان کے انکار کی سختی پر تم سے صبر نہیں ہوتا ، اور تمہیں گمان ہے کہ اس جمود کو توڑنے کے لیے کسی محسوس نشانی کا مشاہدہ کرانا ہی ضروری ہے ، تو خود زور لگاؤ اور تمہارا کچھ بس چلتا ہو تو زمین میں گھس کر یا آسمان پر چڑھ کر کوئی ایسا معجزہ لانے کی کوشش کرو جسے تم سمجھو کہ یہ بے یقینی کو یقین میں تبدیل کردینے کے لیے کافی ہوگا ۔ مگر ہم سے امید نہ رکھو کہ ہم تمہاری یہ خواہش پوری کریں گے کیونکہ ،
ہماری اسکیم میں اس تدبیر کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ۔

ہدایت زبردستی نہیں 

 یعنی اگر صرف یہی بات مطلوب ہوتی کہ تمام انسان کسی نہ کسی طور پر راست رو بن جائیں تو نبی بھیجنے اور کتابیں نازل کرنے اور مومنوں سے کفار کے مقابلہ میں جدوجہد کرانے اور دعوت حق کو تدریجی تحریک کی منزلوں سے گزروانے کی حاجت ہی کیا تھی ۔ یہ کام تو اللہ کے ایک ہی تخلیقی اشارہ سے انجام پا سکتا تھا ۔ لیکن اللہ اس کام کو اس طریقہ پر کرنا نہیں چاہتا ۔
 اس کا منشاء تو یہ ہے کہ حق کو دلائل کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے ۔ پھر ان میں سے جو لوگ فکر صحیح سے کام لے کر حق کو پہچان لیں وہ اپنے آزادانہ اختیار سے اس پر ایمان لائیں ۔ اپنی سیرتوں کو اس کے سانچے میں ڈھال کر باطل پرستوں کے مقابلہ میں اپنا اخلاقی تفوق ثابت کریں ۔ انسانوں کے مجموعہ میں سے صالح عناصر کو اپنے طاقتور استدلال ، اپنے بلند نصب العین ، اپنے بہتر اصول زندگی اور اپنی پاکیزہ سیرت کی کشش سے اپنی طرف کھینچتے چلے جائیں ۔ اور باطل کے خلاف پیہم جدوجہد کر کے فطری ارتقاء کی راہ سے اقامت دین حق کی منزل تک پہنچیں ۔

اللہ اس کام میں ان کی رہنمائی کرے گا اور جس مرحلہ پر جیسی مدد اللہ سے پانے کا وہ اپنے آپ کو مستحق بنائیں گے وہ مدد بھی انہیں دیتا چلا جائے گا ۔ لیکن اگر کوئی یہ چاہے کہ اس فطری راستے کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ محض اپنی قدرت قاہرہ کے زور سے افکار فاسدہ کو مٹا کر لوگوں میں فکر صالح پھیلا دے اور تمدن فاسد کو نیست و نابود کر کے مدنیت صالحہ تعمیر کر دے ، تو ایسا ہرگز نہ ہوگا کیونکہ یہ اللہ کی اس حکمت کے خلا ف ہے جس کے تحت اس نے انسان کو دنیا میں ایک ذمہ دار مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا ہے ، اسے تصرف کے اختیارات دیے ہیں ، طاعت و عصیان کی آزادی بخشی ہے ، امتحان کی مہلت عطا کی ہے ، اور اس کی سعی کے مطابق جزا اور سزا دینے کے لیے فیصلہ کا ایک وقت مقرر کر دیا ہے ۔ 


~~~~~~~~~
🌹🌹🌹
🔰 Quran Subjects  🔰 قرآن مضامین 🔰
"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]
The messenger said, "My Lord, my people have deserted this Quran." (Quran 25:30)
~~~~~~~~~
اسلام دین کامل کو واپسی ....
"اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان طریقوں  کو واضح کرے اور انہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحاء کرتے تھے- وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجّہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے ، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی- ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ. اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے." (قرآن  4:26,27,28]
اسلام کی پہلی صدی، دین کامل کا عروج کا زمانہ تھا ، خلفاء راشدین اور اصحابہ اکرام، الله کی رسی قرآن کو مضبوطی سے پکڑ کر اس پر کاربند تھے ... پہلی صدی حجرہ کے بعد جب صحابہ اکرام بھی دنیا سے چلے گیے تو ایک دوسرے دور کا آغاز ہوا ... الله کی رسی قرآن کو بتدریج پس پشت ڈال کر تلاوت تک محدود کر دیا ...اور مشرکوں کی طرح فرقہ واریت اختیار کرکہ دین کامل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے-  ہمارے مسائل کا حل پہلی صدی کے اسلام دین کامل کو واپسی میں ہے  .. مگر کیسے >>>>>>

کیا تم کتاب الله کے علاوہ اور کتابیں چاہتے ہو؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: أَكِتَابًا غَيْرَ كِتَابِ اللَّهِ تُرِيدُونَ؟

کیا تم  کتاب الله کے علاوہ اور کتابیں چاہتے ہو؟
 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  أَكِتَابًا غَيْرَ كِتَابِ اللَّهِ تُرِيدُونَ؟



1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف سے حدیث نہ لکھنے کا حکم  ،حصرت عمر رضی اللہ اور صحابہ اکرام کا بھی کتب حدیث نہ لکھنے کا فیصلہ ( 45 احادیث ) میں موجود ہے۔

2۔ *اگر یہ 45 احادیث نہ بھی ہوتیں تو "سنت" سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی کتاب مدون نہ کی۔  قرآن کو خلفاءراشدین نے کتاب کی صورت مدون کیا اور حدیث کو نہ کیا۔*

3 ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کچھ صحابہ کو یاداشت کی کمی ، معزوری پر انفرادی طور پر احادیث لکھنے کی اجازت ملی مگر ۔۔۔۔ احادیث لکھنے کی *عام اجازت*  نہیں اگر عام اجازت ہوتی تو انفرادی اجازت کیوں حاصل کرتے اور کئی کو انکار بھی ہوا۔ 

4۔ حفظ کے لیئے زاتی نوٹس لکھنا اور *کتاب حدیث* مدون کرنا دو مختلف باتیں ہیں جبکہ قرآن کے علاوہ کسی کتاب کی ممانعت کا واضح حکم موجود ہے۔

5۔مشہور کتب احادیث تیسری صدی ہجری میں مدون ہوئیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم و خلفا راشدین کی سنت کے برخلاف ۔

6۔ *اگر کسی کو احادیث لکھنے  یا نہ  لکھنے پر اختلاف یا غلط فہمی ہو بھی تو خلفاء راشدین کے حدیث کی تدوین نہ کرنے کے فیصلہ سے ختم ہو جاتی ہے۔*

7۔ رسول  صلی الله علیہ وسلم   نے ، خلفاء راشدین کی سنت کو  اختلافات کو ختم کرنے کے لئیے سختی سے عمل کرنے،   دانتوں سے پکڑنے کا حکم دیا تھا ، اور بدعت ضلالہ سے منع فرمایا  (سنن ابی داود 4607 ، الألباني: صحيح،  جامع الترمذي: 2676 ، سنن أبي داود: 4607، سنن ابن ماجه: 42، 43 ، مشكوة المصابيح: 165) -

8۔ *اس اہم   حدیث کا انکار کرنا ،  رسول  صلی الله علیہ وسلم کی صریح نافرمانی ہے !*

9۔ *قرآن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا اور اسے اللہ کی اطاعت  قرار دیا۔*

 10۔ *اور جو حضرات ، حدیث کو وحی بھی سمجھتے ہیں وہ تو پھر منکر حدیث  اور اپنی ہی تاویل کے مطابق منکر وحی بھی بن جاتے ہیں !!!* (و اللہ اعلم)

11۔ *دینی پیشواؤں کی من گھڑت تاویلوں پر یہود و نصاری کی طرح اندھا دھند یقین کرنے کی بجائیے   مکمل تحقیق ۔۔۔۔ پڑھ کر خود فیصلہ کریں ۔۔* 
کیونکہ ۔۔۔۔۔ جواب دار آپ ہیں ۔۔۔۔
*اور تم ہمارے پاس تنہا تنہا آگئے جس طرح ہم نے اول بار تم کو پیدا کیا تھا اور جو کچھ ہم نے تم کو دیا تھا اس کو اپنے پیچھے ہی چھوڑ آئے اور ہم تو تمہارے ہمراه تمہارے ان شفاعت کرنے والوں کو نہیں دیکھتے جن کی نسبت تم دعویٰ رکھتے تھے کہ وه تمہارے معاملے میں شریک ہیں۔ واقعی تمہارے آپس میں تو قطع تعلق ہوگیا اور وه تمہارا دعویٰ سب تم سے گیا گزرا ہوا (قرآن  6:94 )*

إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّـهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ﴿٢٢﴾
*یقیناً اللہ کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (قرآن 8:22)*
يَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّـهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٤٢﴾
*جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً اللہ سُننے والا اور جاننے والا ہے (قرآن:8:42)*

https://youtu.be/MtuF2N2Utz4
https://Quran1book.blogspot.com
http://bit.ly/31lYQV3
*واضح دلیل اور جہلا*
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم 0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قَالَ يٰقَوۡمِ اَرَءَيۡتُمْ اِنۡ كُنۡتُ عَلٰى بَيِّنَةٍ مِّنۡ رَّبِّىۡ وَاٰتٰٮنِىۡ رَحۡمَةً مِّنۡ عِنۡدِهٖ فَعُمِّيَتۡ عَلَيۡكُمۡؕ اَنُلۡزِمُكُمُوۡهَا وَاَنۡـتُمۡ لَـهَا كٰرِهُوۡنَ ۞ وَيٰقَوۡمِ لَاۤ اَسۡــئَلُكُمۡ عَلَيۡهِ مَالًا ؕاِنۡ اَجۡرِىَ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ‌ وَمَاۤ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا‌ ؕ اِنَّهُمۡ مُّلٰقُوۡا رَبِّهِمۡ وَلٰـكِنِّىۡۤ اَرٰٮكُمۡ قَوۡمًا تَجۡهَلُوۡنَ‏ ۞
(القرآن - سورۃ نمبر 11 هود، آیت نمبر 28-29)
ترجمہ:
اس نے کہا اے میری قوم ! کیا تم نے دیکھا کہ *اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل پر (قائم) ہوں اور اس نے مجھے اپنے پاس سے بڑی رحمت عطا فرمائی ہو، پھر وہ تم پر مخفی رکھی گئی ہو، تو کیا ہم اسے تم پر زبردستی چپکا دیں گے، جب کہ تم اسے ناپسند کرنے والے ہو۔ ۞ اور اے میری قوم ! میں تم سے اس پر کسی مال کا سوال نہیں کرتا، میری مزدوری اللہ کے سوا کسی پر نہیں اور میں ان لوگوں کو دور ہٹانے والا نہیں جو ایمان لائے ہیں، یقینا وہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں اور لیکن میں تمہیں ایسے لوگ دیکھتا ہوں جو جہالت برتتے ہو۔* ۞
🌹🌹🌹
🔰 *Quran Subjects*  🔰 *قرآن مضامین* 🔰

*"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]*

*کیا یہ لوگ قرآن پر تدبر ّنہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل پڑچکے ہیں[47:24]*

*قرآن کے پیغام کوپھیلانا "جہاد کبیرہ" ہے(25:52)*
🤷🏻‍♂️
*FB* - https://www.facebook.com/QuranSubject
*English*- https://QuranSubjects.wordpress.com  
*Urdu*- https://Quransubjects.blogspot.com 
https://flip.it/6zSSlW
The Last, lost Book: https://Quran1book.blogspot.com
#Quran #Islam #Muslims

عقل ‏سے ‏کام ‏نہ ‏لینا ‏گمراہی ‏

پیغام ہدائیت  نظر انداز  ، سنجیدگی سے غور نہ کرنا ، دلیل ہے کہ اکثر لوگ عقل سے کام نہیں لیتے۔



يٰقَوۡمِ لَاۤ اَسۡــئَلُكُمۡ عَلَيۡهِ اَجۡرًا‌ ؕ اِنۡ اَجۡرِىَ اِلَّا عَلَى الَّذِىۡ فَطَرَنِىۡ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ ۞ (القرآن - سورۃ نمبر 11 هود, آیت نمبر 51)
ترجمہ:
اے برادرانِ قوم، اس کام پر میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا، میرا اجر تو اس کے ذمّہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے، کیا تم عقل سے ذرا کام نہیں لیتے؟
(القرآن - سورۃ نمبر 11 هود, آیت نمبر 51)

یہ نہایت بلیغ فقرہ ہے کہ جس میں ایک بڑا استدلال سمیٹ دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میری بات کو جس طرح سرسری طور پر تم نظر انداز کر رہے ہو اور اس پر سنجیدگی سے غور نہیں کرتے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے۔ 
ورنہ اگر تم عقل سے کام لینے والے ہوتے تو ضرور سوچتے کہ جو شخص اپنی کسی ذاتی غرض کے بغیر دعوت و تبلیغ اور تذکیر و نصیحت کی یہ سب مشقیں جھیل رہا ہے، جس کی اس تگ و دو میں تم کسی شخصی یا خاندانی مفاد کا شائبہ تک نہیں پاسکتے، وہ ضرور اپنے پاس یقین و اذعان کی کوئی ایسی بنیاد اور ضمیر کے اطمینان کی کوئی ایسی وجہ رکھتا ہے*
 جس کی بنا پر اس نے اپنا عیش و آرام چھوڑ کر، اپنی دنیا بنانے کی فکر سے بےپروا ہو کر، اپنے آپ کو اس جو کھم میں ڈالا ہے کہ صدیوں کے جمے اور رچے ہوئے عقائد، رسوم اور طرز زندگی کے خلاف آواز اٹھائے اور اس کی بدولت دنیا بھر کی دشمنی مول لے لے۔ ایسے شخص کی بات کم ازکم اتنی بےوزن تو نہیں ہو سکتی کہ بغیر سوچے سمجھے اسے یو نہیں ٹال دیا جائے اور اس پر سنجیدہ غور و فکر کی ذرا سی تکلیف بھی ذہن کو نہ دی جائے۔ (تفہیم القرآن )


1. https://QuranSubjects.blogspot.com 
2. https://youtu.be/MtuF2N2Utz4
🌹🌹🌹
*"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]*
*کیا یہ لوگ قرآن پر تدبر ّنہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل پڑچکے ہیں[47:24]*
*قرآن کے پیغام کوپھیلانا "جہاد کبیرہ" ہے(25:52)*

#Quran #Islam #Muslims 
#Quran1Book #Hadith #Bidah #بدعة  #Islam #Muslims

دس احکام Ten Commandments


اللہ نے انسانی زندگی کو منضبط کرنے کے لیے  پابندیاں عائد کی ہیں اور جو ہمیشہ سے شرائع الٰہیہ کی اصل الاُصُول رہی ہیں۔ جو قرآن و بائیبل (تو رات ) دس احکام  کے طور  مشہور ہیں:
 [تو رات (بائیبل ، عہد نامہ قدیم ، کتاب خروج باب 20)]
تب خدا نے یہ ساری باتیں کہیں ،
1, “ میں خدا وند تمہارا خدا ہوں۔ میں تمہیں ملک مصر سے باہر لایا جہاں تم غُلام تھے۔ “تمہیں میرے علا وہ کسی دوسرے خدا ؤں کی عبادت نہیں کرنی چاہئے۔
 2,“ تمہیں کو ئی بھی مورتی نہیں بنا نا چاہئے۔ کسی بھی اس چیز کی تصویر یا بُت مت بناؤ جو اوپر آسمان میں یا نیچے زمین میں ہو یا پانی کے نیچے ہو۔  
بُتوں کی پرستش یا کسی قسم کی خدمت نہ کرو کیوں ؟ کیوں کہ میں خدا وند تمہارا خدا ہوں۔ میرے لوگ جو دوسرے خدا ؤں کی عبادت کر تے ہیں۔ میں ان سے نفرت کر تا ہوں۔ اگر کوئی آدمی میرے خلاف گناہ کر تا ہے تو میں اسکا دشمن ہو جاتا ہوں۔ میں اس آدمی کی اولادوں کی تیسری اور چوتھی نسل تک کو سزا دونگا۔ 
لیکن میں ان آدمیوں پر بہت مہر بان رہوں نگا جو مجھ سے محبت کریں گے اور میرے احکامات کو مانیں گے۔ میں انکے خاندانوں کے سا تھ اور انکی ہزاروں نسلوں تک مہربان رہوں گا۔
3. “تمہارے خدا وند خدا کے نام کا استعمال تمہیں غلط طریقے سے نہیں کر نا چاہئے۔ اگر کو ئی آدمی خدا وند کے نام کا استعمال غلط طریقے پر کر تا ہے تو وہ قصور وار ہے اور خدا وند اسے کبھی بے گناہ نہیں ما نے گا۔
4 “سبت کو ایک خاص دن کے طور پر منا نے کا خیال رکھنا۔  تم ہفتے میں چھ دن اپنا کام کرو۔  لیکن ساتویں د ن تمہارے خدا وند خدا کے آرام کا دن ہے۔ اس دن کو ئی بھی آدمی چاہیں۔ تم ، بیٹے اور بیٹیاں تمہارے غلام اور داشتائیں جانور اور تمہارے شہر میں رہنے والے سب غیر ملکی کام نہیں کریں گے۔  کیوں کہ خدا وند نے چھ دن کام کیا اور آسمان ، زمین ، سمندر اور ان کی ہر چیز بنائی اور ساتویں دن خدا نے آرام کیا۔ اس لئے خدا وند نے سبت کے دن برکت بخشی اور اسے بہت ہی خاص دن کے طور پر بنایا۔ [یہ پابندی صرف بنی اسرایئل کے لیے تھی  جسے قرآن  منسوخ  دیا ] 
5. “اپنے ماں باپ کی عزت کرو۔ یہ اس لئے کرو کہ تمہارے خدا وند خدا جس زمین کو تمہیں دے رہا ہے اس میں تم ساری زندگی گزار سکو۔
6. “تمہیں کسی آدمی کو قتل نہیں کر نا چاہئے۔
7.“تمہیں بد کاری کے گناہ نہیں کر نا چاہئے۔
8. “تمہیں چوری نہیں کرنی چاہئے۔
9. “تمہیں اپنے پڑوسیوں کے خلاف جھو ٹی گواہی نہیں دینی چاہئے۔
10. “دوسرے لوگوں کی چیزوں کو لینے کی خواہش نہیں کر نی چاہئے۔ تمہیں اپنے پڑوسی کا گھر ، اسکی بیوی ، اسکے خادم اور خادمائیں ، اسکی گائیں اسکے گدھوں کو لینے کی خواہش نہیں کر نی چاہئے۔ تمہیں کسی کی بھی چیز کو لینے کی خواہش نہیں کر نی چاہئے۔”
[تو رات (بائیبل ، عہد نامہ قدیم ، کتاب خروج باب 20)]

قرآن کے احکام : 

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قُلۡ تَعَالَوۡا اَتۡلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمۡ عَلَيۡكُمۡ‌ اَلَّا تُشۡرِكُوۡا بِهٖ شَيۡئًـــا وَّبِالۡوَالِدَيۡنِ اِحۡسَانًا‌ ۚ وَلَا تَقۡتُلُوۡۤا اَوۡلَادَكُمۡ مِّنۡ اِمۡلَاقٍ‌ؕ نَحۡنُ نَرۡزُقُكُمۡ وَاِيَّاهُمۡ‌ ۚ وَلَا تَقۡرَبُوا الۡفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنۡهَا وَمَا بَطَنَ‌ ۚ وَلَا تَقۡتُلُوا النَّفۡسَ الَّتِىۡ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالۡحَـقِّ‌ ؕ ذٰ لِكُمۡ وَصّٰٮكُمۡ بِهٖ لَعَلَّكُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ۞ 
( سورۃ نمبر 6 الأنعام آیت نمبر 151)
ترجمہ:
اے محمد ؐ ! ان سے کہو کہ آوٴ میں تمہیں سُناوٴں تمہارے رب نے تم پر کیا پابندیاں عائد کی ہیں:(1) یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو،(۲) اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو،(۳) اور اپنی اولاد کو مُفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دیں گے۔(۴) اور بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاوٴ خواہ وہ کُھلی ہوں یا چُھپی۔(۵) اور کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھیرایا ہے ہلاک نہ کرو مگر حق کے ساتھ۔یہ باتیں ہیں جن کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے، شاید کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو
یعنی تمہارے رب کے عائد کی ہوئی پابندیاں وہ نہیں ہیں جن میں تم گرفتار ہو، بلکہ اصل پابندیاں یہ ہیں جو اللہ نے انسانی زندگی کو منضبط کرنے کے لیے عائد کی ہیں اور جو ہمیشہ سے شرائع الٰہیہ کی اصل الاُصُول رہی ہیں۔ 

 شرک 
یعنی نہ خدا کی ذات میں کسی کو اس کا شریک ٹھہراؤ، نہ اس کی صفات میں، نہ اس کے اختیارات میں، اور نہ اس کے حقوق میں۔
ذات میں شرک :
یہ ہے کہ جو ہر اُلُوہیّت میں کسی کو حصہ دار قرار دیا جائے۔ مثلاً نصاریٰ کا عقیدہ تثلیث، مشرکین عرب کا فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دینا، اور دوسرے مشرکین کا اپنے دیوتاؤں اور دیویوں کو اور اپنے شاہی خاندانوں کو جنس آلہہ کے افراد قرار دینا۔ یہ سب شرک فی الذات ہیں۔
صفات میں شرک:
 یہ ہے کہ خدائی صفات جیسی کہ وہ خدا کے لیے ہیں، ویسا ہی ان کو یا ان میں سے کسی صفت کو کسی دوسرے کے لیے قرار دینا۔ مثلاً کسی کے متعلق یہ سمجھنا کہ اس پر غیب کی ساری حقیقتیں روشن ہیں، یا وہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے، یا وہ تمام نقائص اور تمام کمزوریوں سے منزَّہ اور بالکل بےخطا ہے۔
اختیارات میں شرک
 یہ ہے کہ خدا ہونے کی حیثیت سے جو اختیارات صرف اللہ کے لیے خاص ہیں ان کو یا ان میں سے کسی کو اللہ کے سوا کسی اور کے لیے تسلیم کیا جائے۔ مثلاً فوق الفطری طریقے سے نفع و ضرر پہنچانا، حاجت روائی و دستگیری کرنا، محافظت و نگہبانی کرنا، دعائیں سننا اور قسمتوں کو بنانا اور بگاڑنا۔ نیز حرام و حلال اور جائز و ناجائز کی حدود مقرر کرنا اور انسانی زندگی کے لیے قانون و شرع تجویز کرنا۔ یہ سب خداوندی کے مخصوص اختیارات ہیں جن میں سے کسی کو غیر اللہ کے لیے تسلیم کرنا شرک ہے۔
حقوق میں شرک
 یہ ہے کہ خدا ہونے کی حیثیت سے بندوں پر خدا کے جو مخصوص حقوق ہیں وہ یا ان میں سے کوئی حق خدا کے سوا کسی اور کے لیے مانا جائے۔ مثلاً رکوع و سجود، دست بستہ قیام، سلامی وآستانہ بوسی، شکر نعمت یا اعتراف برتری کے لیے نذر و نیاز اور قربانی، قضائے حاجات اور رفع مشکلات کے لیے مَنّت، مصائب و مشکلات میں مدد کے لیے پکارا جانا، اور ایسی ہی پرستش و تعظیم و تمجید کی دوسری تمام صورتیں اللہ کے مخصوص حقوق میں سے ہیں۔ اسی طرح ایسا محبوب ہونا کہ اس کی محبت پر دوسری سب محبتیں قربان کی جائیں، اور ایسا مستحق تقویٰ و خشیت ہونا کہ غیب و شہادت میں اس کی ناراضی اور اس کے حکم کی خلاف ورزی سے ڈرا جائے، یہ بھی صرف اللہ کا حق ہے۔ اور یہ بھی اللہ ہی کا حق ہے کہ اس کی غیر مشروط اطاعت کی جائے، اور اس کی ہدایت کو صحیح و غلط کا معیار مانا جائے، اور کسی ایسی اطاعت کا حلقہ اپنی گردن میں نہ ڈالا جائے جو اللہ کی اطاعت سے آزاد ایک مستقل اطاعت ہو اور جس کے حکم کے لیے اللہ کے حکم کی سند نہ ہو۔ ان حقوق میں سے جو حق بھی دوسرے کو دیا جائے گا وہ اللہ کا شریک ٹھہرے گا خواہ اس کو خدائی ناموں سے کوئی نام دیا جائے یا نہ دیا جائے۔
 نیک سلوک 
اس میں ادب، تعظیم، اطاعت، رضا جوئی، خدمت، سب داخل ہیں۔ والدین کے اس حق کو قرآن میں ہر جگہ توحید کے حکم کے بعد بیان فرمایا گیا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ خدا کے بعد بندوں کے حقوق میں سب سے مقدم حق انسان پر اس کے والدین کا ہے۔
 ”فواحش“
اصل میں لفظ ”فواحش“ استعمال ہوا ہے جس کا اطلاق ان تمام افعال پر ہوتا ہے جن کی برائی بالکل واضح ہے۔ قرآن میں زنا، عمل قوم لوط، برہنگی، جھوٹی تہمت، اور باپ کی منکوحہ سے نکاح کرنے کو فحش افعال میں شمار کیا گیا ہے۔ حدیث میں چوری اور شراب نوشی اور بھیک مانگنے کو من جملہ فواحش کہا گیا ہے۔ اسی طرح دوسرے تمام شرمناک افعال بھی فواحش میں داخل ہیں اور ارشاد الہٰی یہ ہے کہ اس قسم کے افعال نہ علانیہ کیے جائیں نہ چھپ کر۔
 انسانی جان کی حرمت  تقدس 
یعنی انسانی جان، جو فی الاصل خدا کی طرف سے حرام ٹھہرائی گئی ہے، ہلاک نہ کی جائے گی مگر حق کے ساتھ۔ اب رہا یہ سوال کہ ”حق کے ساتھ“ کا کیا مفہوم ہے، تو اس کی تین صورتیں قرآن میں بیان کی گئی ہیں، اور دو صورتیں اس پر زائد، نبی ﷺ نے بیان فرمائی ہیں۔ قرآن کی بیان کردہ صورتیں یہ ہیں 
(1) انسان کسی دوسرے انسان کے قتل عمد کا مجرم ہو اور اس پر قصاص کا حق قائم ہوگیا ہو۔ 
(2) دین حق کے قیام کی راہ میں مزاحم ہو اور اس سے جنگ کیے بغیر چارہ نہ رہا ہو۔ 
(3) دار الاسلام کے حدود میں بدامنی پھیلائے یا اسلامی نظام حکومت کو الٹنے کی سعی کرے۔
باقی دو صورتیں جو حدیث میں ارشاد ہوئی ہیں، یہ ہیں 
(4) شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کرے۔ 
(5) ارتداد اور خروج از جماعت کا مرتکب ہو۔ 
ان پانچ صورتوں کے سوا کسی صورت میں انسان کا قتل انسان کے لیے حلال نہیں ہے، خواہ وہ مومن ہو یا ذمی یا عام کافر۔

وَاَنَّ هٰذَا صِرَاطِىۡ مُسۡتَقِيۡمًا فَاتَّبِعُوۡهُ‌ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوۡا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمۡ عَنۡ سَبِيۡلِهٖ‌ ؕ ذٰ لِكُمۡ وَصّٰٮكُمۡ بِهٖ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُوۡنَ ۞ 
( سورۃ نمبر 6 الأنعام، آیت نمبر 153)
ترجمہ:
(1۰) نیز اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے لہٰذا تم اِسی پر چلو اور دُوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اُس کے راستے سے ہٹاکر تمہیں پراگندہ کردیں گے۔ یہ ہے وہ ہدایت جو تمہارے رب نے تمہیں کی ہے، شاید کہ تم کَج روی سے بچو۔

اوپر جس فطری عہد کا ذکر ہوا، یہ اس عہد کا لازمی اقتضا ہے کہ انسان اپنے رب کے بتائے ہوئے راستہ پر چلے، کیونکہ اس کے امر کی پیروی سے منہ موڑنا اور خود سری و خود مختاری یا بندگی غیر کی جانب قدم بڑھانا انسان کی طرف سے اس عہد کی اولین خلاف ورزی ہے جس کے بعد ہر قدم پر اس کی دفعات ٹوٹتی چلی جاتی ہیں۔ علاوہ بریں اس نہایت نازک، نہایت وسیع اور نہایت پیچیدہ عہد کی ذمہ داریوں سے انسان ہرگز عہدہ برآ نہیں ہوسکتا جب تک وہ خدا کی رہنمائی کو قبول کر کے اس کے بتائے ہوئے راستہ پر زندگی بسر نہ کرے۔ اس کو قبول نہ کرنے کے دو زبردست نقصان ہیں۔ ایک یہ کہ ہر دوسرے راستہ کی پیروی لازماً انسان کو اس راہ سے ہٹا دیتی ہے جو خدا کے قرب اور اس کی رضا تک پہنچنے کی ایک ہی راہ ہے۔ دوسرے یہ کہ اس راہ سے ہٹتے ہی بیشمار پگڈنڈیاں سامنے آجاتی ہیں جن میں بھٹک کر پوری نوع انسانی پراگندہ ہوجاتی ہے اور اس پراگندگی کے ساتھ ہی اس کے بلوغ و ارتقاء کا خواب بھی پریشان ہو کر رہ جاتا ہے۔ انہی دونوں نقصانات کو اس فقرے میں بیان کیا گیا ہے کہ ”دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ تمہیں اس کے راستہ سے ہٹا کر پراگندہ کردیں گے“۔ (ملاحظہ ہو سورة مائدہ، 35)۔
ثُمَّ اٰتَيۡنَا مُوۡسَى الۡـكِتٰبَ تَمَامًا عَلَى الَّذِىۡۤ اَحۡسَنَ وَتَفۡصِيۡلاً لِّـكُلِّ شَىۡءٍ وَّهُدًى وَرَحۡمَةً لَّعَلَّهُمۡ بِلِقَآءِ رَبِّهِمۡ يُؤۡمِنُوۡنَ ۞ 
( سورۃ نمبر 6 الأنعام، آیت نمبر 154)
ترجمہ:
پھر ہم نے موسیٰ ؑ کو کتاب عطا کی تھی جو بھلائی کی روش اختیار کرنے والے انسان پر نعمت کی تکمیل اور ہر ضروری چیز کی تفصیل اور سراسر ہدایت و رحمت تھی (اور اس لیے بھی اسرائیل کو دی گئی تھی کہ) شاید لوگ اپنے رب کی ملاقات پر ایمان لائیں۔
رب کی ملاقات پر ایمان لانے سے مراد اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جواب دہ سمجھنا اور ذمہ دارانہ زندگی بسر کرنا ہے۔ یہاں اس ارشاد کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ خود بنی اسرسائیل میں اس کتاب کی حکیمانہ تعلیمات سے ذمہ داری کا احساس بیدار ہوجائے۔ دوسرے یہ کہ عام لوگ اس اعلیٰ درجہ کے نظام زندگی کا مطالعہ کر کے اور نیکو کار انسانوں میں اس نعمت ہدایت اور اس رحمت کے اثرات دیکھ کر یہ محسوس کرلیں کہ انکار آخرت کی غیر ذمہ دارانہ زندگی کے مقابلہ میں وہ زندگی ہر اعتبار سے بہتر ہے جو اقرار آخرت کی بنیاد پر ذمہ دارانہ طریقہ سے بسر کی جاتی ہے، اور اس طرح یہ مشاہدہ و مطالعہ انہیں انکار سے ایمان کی طرف کھینچ لائے۔
وَهٰذَا كِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوۡهُ وَاتَّقُوۡا لَعَلَّكُمۡ تُرۡحَمُوۡنَۙ ۞ (سورۃ نمبر 6 الأنعام، آیت نمبر 155)
ترجمہ:
اور اسی طرح یہ کتاب ہم نے نازل کی ہے، ایک برکت والی کتاب پس تم اِس کی پیروی کرو اور تقویٰ کی روش اختیار کرو، بعید نہیں کہ تم پر رحم کیا جائے
🌹🌹🌹
🔰 Quran Subjects  🔰 قرآن مضامین 🔰

"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]

کیا یہ لوگ قرآن پر تدبر ّنہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل پڑچکے ہیں[47:24]

قرآن کے پیغام کوپھیلانا "جہاد کبیرہ" ہے(25:52)
~~~~~~~~~
اسلام دین کامل کو واپسی ....
"اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان طریقوں  کو واضح کرے اور انہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحاء کرتے تھے- وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجّہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے ، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی- ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ. اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے." (قرآن  4:26,27,28]
اسلام کی پہلی صدی، دین کامل کا عروج کا زمانہ تھا ، خلفاء راشدین اور اصحابہ اکرام، الله کی رسی قرآن کو مضبوطی سے پکڑ کر اس پر کاربند تھے ... پہلی صدی حجرہ کے بعد جب صحابہ اکرام بھی دنیا سے چلے گیے تو ایک دوسرے دور کا آغاز ہوا ... الله کی رسی قرآن کو بتدریج پس پشت ڈال کر تلاوت تک محدود کر دیا ...اور مشرکوں کی طرح فرقہ واریت اختیار کرکہ دین کامل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے-  ہمارے مسائل کا حل پہلی صدی کے اسلام دین کامل کو واپسی میں ہے  .. مگر کیسے >>>>>>

Popular Books