انسانیت کی تخلیق ۔۔ دو مختلف نقطہ نظریات: انسانی (قرآن ) یا حیوانی (ڈارون) دو مختلف تصوّرات کی (implications)
حیوانی تصور کی implications
انسان اصل حیوانی کی ایک فرع نظر آئے گا۔ اس کی زندگی کے جملہ قوانین حتٰی کہ اخلاقی قوانین کے لیے بھی آپ بنیادی اصول ان قوانین میں تلاش کریں گے جن کے تحت حیوانی زندگی چل رہی ہے۔ اس کے لیے حیوانات کا سا طرز عمل آپ کو بالکل ایک فطری طرز عمل معلوم ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ جو فرق انسانی طرز عمل اور حیوانی طرز عمل میں آپ دیکھنا چاہیں گے وہ بس اتنا ہی ہوگا کہ حیوانات جو کچھ آلات اور صنائع اور تمدنی آرائشوں اور تہذیبی نقش و نگار کے بغیر کرتے ہیں انسان وہی سب کچھ ان چیزوں کے ساتھ کرلے۔
تخلیق انسانی کے آغاز کو اس کی تفصیلی کیفیّت کے ساتھ سمجھنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ہم اس حقیقت کا پوری طرح ادراک نہیں کرسکتے کہ مواد ارضی سے بشر کس طرح بنایا گیا، پھر اس کی صورت گری اور تعدیل کیسے ہوئی، اور اس کے اندر روح بیان کرتا ہے۔ لیکن قرآن بہت کچھ واضح کرتا ہے ۔۔۔۔
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم 0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَلَقَدۡ خَلَقۡنٰكُمۡ ثُمَّ صَوَّرۡنٰكُمۡ ثُمَّ قُلۡنَا لِلۡمَلٰۤئِكَةِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ ۖ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِيۡسَؕ لَمۡ يَكُنۡ مِّنَ السّٰجِدِيۡنَ ۞
(القرآن - سورۃ نمبر 7 الأعراف, آیت 11)
ترجمہ:
ہم نے تمہاری تخلیق کی ابتدا کی، پھر تمہاری صورت بنائی، پھر فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو، اس پر سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا
آدم ؑ کو جو سجدہ کرایا گیا تھا وہ آدم ہونے کی حیثیت سے نہیں بلکہ نوع انسانی کا نمائندہ فرد ہونے کی حیثیت سے تھا۔
اور یہ جو فرمایا کہ ”ہم نے تمہاری تخلیق کی ابدا کی، پھر تمہیں صورت بخشی، پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو،“
اس کا مطلب یہ ہے کہ
1. ہم نے پہلے تمہاری تخلیق کا منصوبہ بنایا اور
2۔ تمہار مادہ آفرینش تیار کیا، پھر
3۔ اس مادے کو انسانی صورت عطا کی، پھر
4۔ جب ایک زندہ ہستی کی حیثیت سے انسان وجود میں آگیا تو اسے سجدہ کرنے کے لیے فرشتوں کو حکم دیا۔
اس آیات کی یہ تشریح خود قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بیان ہوئی ہے۔ مثلاً سورة صٓ میں ہے
اِذْقَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَا ئِکَةِ اِنِّیْ خَالِق ٌۢبَشَرًامِّنْ طِیْنٍ° فَاِذَا سَوَّیْتُہ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رّ وْحِیْ فَقَعُوْالَہ سٰجِدِیْنَ°(آیات 71۔ 72)
”تصور کرو اس وقت کا جب کہ تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں ایک بشر مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں، پھر جب میں اسے پوری طرح تیار کرلوں اور اس کے اندر اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدہ میں گر جانا۔“
اس آیت میں وہی تین مراتب ایک دوسرے انداز میں بیان کیے گئے ہیں، یعنی
1. پہلے مٹی سے ایک بشر کی تخلیق،
2.پھر اس کا تسویہ، یعنی اس کی شکل و صورت بنانا اور اس کے اعضاء اور اس کی قوتوں کا تناسب قائم کرنا،
3.پھر اس کے اندر اپنی روح سے کچھ پھونک کہ آدم کو وجود میں لے آنا۔
اسی مضمون کو سورة حِجْر میں بایں الفاظ ادا کیا گیا ہے،
وَاِذْقَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَا ئِکَةِ اِنِّیْ خَالِق ٌۢبَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ° فَاِذَا سَوَّیْتُہ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رّ وْحِیْ فَقَعُوْالَہ سٰجِدِیْنَ°(آیات 28۔ 29)
”اور تصور کرو اس وقت کا جب کہ تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں خمیر اٹھی ہوئی مٹی کے گارے سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں، پھر جب میں اسے پوری طرح تیار کرلوں اور اس کے اندر اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدہ میں گر پڑنا۔“
*تخلیق انسانی کے اس آغاز کو اس کی تفصیلی کیفیّت کے ساتھ سمجھنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ہم اس حقیقت کا پوری طرح ادراک نہیں کرسکتے کہ مواد ارضی سے بشر کس طرح بنایا گیا، پھر اس کی صورت گری اور تعدیل کیسے ہوئی، اور اس کے اندر روح بیان کرتا ہے*
جو موجودہ زمانہ میں *ڈارون کے متبعین سائنس* کے نام سے پیش کرتے ہیں۔ ان نظریات کی رو سے انسان غیر انسانی اور نیم انسانی حالت کے مختلف مدارج سے ترقی کرتا ہوا مرتبہ انسانیت تک پہنچتا ہے اور اس تدریجی ارتقاء کے طویل خط میں کوئی نقطہ خاص ایسا نہیں ہوسکتا جہاں سے غیر انسانی حالت کو ختم قرار دے کر ”نوع انسانی“ کا آغاز تسلیم کیا جائے۔
*بخلاف اس کے قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ انسانیت کا آغاز خالص انسانیت ہی سے ہوا ہے، اس کی تاریخ کسی غیر انسانی حالت سے قطعاً کوئی رشتہ نہیں رکھتی، وہ اوّل روز سے انسان ہی بنایا گیا تھا اور خدا نے کامل انسانی شعور کے ساتھ پوری روشنی میں اس کی ارضی زندگی کی ابتدا کی تھی۔*
*انسانیت کی تاریخ کے متعلق یہ دو مختلف نقطہ نظر ہیں اور ان سے انسانیت کے وہ بالکل مختلف تصوّر پیدا ہوتے ہیں۔*
حیوانی تصور کی implications
ایک تصور کو اختیار کیجیے تو آپ کو انسان اصل حیوانی کی ایک فرع نظر آئے گا۔ اس کی زندگی کے جملہ قوانین حتٰی کہ اخلاقی قوانین کے لیے بھی آپ بنیادی اصول ان قوانین میں تلاش کریں گے جن کے تحت حیوانی زندگی چل رہی ہے۔ اس کے لیے حیوانات کا سا طرز عمل آپ کو بالکل ایک فطری طرز عمل معلوم ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ جو فرق انسانی طرز عمل اور حیوانی طرز عمل میں آپ دیکھنا چاہیں گے وہ بس اتنا ہی ہوگا کہ حیوانات جو کچھ آلات اور صنائع اور تمدنی آرائشوں اور تہذیبی نقش و نگار کے بغیر کرتے ہیں انسان وہی سب کچھ ان چیزوں کے ساتھ کرلے۔
انسانی تصور کی implications
اس کے برعکس دوسرا تصوّر اختیار کرتے ہی آپ انسان کو جانور کے بجائے ”انسان“ ہونے کی حیثیت سے دیکھیں گے۔ آپ کی نگاہ میں وہ ”حیوان ناطق“ یا ”متمدن جانور“ نہیں ہوگا بلکہ زمین پر خدا کا خلیفہ ہوگا۔ آپ کے نزدیک وہ چیز جو اسے دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے اس کا نطق یا اس کی اجتماعیت نہ ہوگی بلکہ اس کی اخلاقی ذمہ داری اور اختیارات کی وہ امانت ہوگی جسے خدا نے اس کے سپرد کیا ہے اور جس کی بنا پر وہ خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔ اس طرح انسانیت اور اس کے جملہ متعلقات پر آپ کی نظر پہلے زاویہ نظر سے یک سر مختلف ہوجائے گی۔ آپ انسان کے لیے ایک دوسرا ہی فلسفہ حیات اور ایک دوسرا ہی نظام اخلاق و تمدّن و قانون طرب کرنے لگیں گے اور اس فلسفے اور اس نظام کے اصول و مبادی تلاش کرنے کے لیے آپ کی نگاہ خود بخود عالم اسفل کے بجائے عالم بالا کی طرف اٹھنے لگے گی۔
اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ یہ دوسرا تصور انسان چاہے اخلاقی اور نفسیاتی حیثیت سے کتنا ہی بلند ہو مگر محض اس تخیل کی خاطر ایک ایسے نظریہ کو کس طرح رد کردیا جائے جو *سائنٹیفک دلائل سے ثابت ہے*“
لیکن جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں ان سے ہمارا سوال یہ ہے کہ :
*کیا فی الواقع ڈاروینی نظریہ ارتقاء سائنٹیفک دلائل سے ”ثابت ہوچکا ہے ؟*
سائنس سے محض سرسری واقفیت رکھنے والے لوگ تو بیشک اس غلط فہمی میں ہیں کہ یہ نظریہ ایک ثابت شدہ علمی حقیقت بن چکا ہے، لیکن محققین اس بات کو جانتے ہیں کہ الفاظ اور ہڈیوں کے لمبے چوڑے سرو سامان کے باوجود ابھی تک یہ صرف ایک نظریہ ہی ہے اور اس کے جن دلائل کو غلطی سے دلائل ثبوت کہا جاتا ہے وہ دراصل محض دلائل امکان ہیں، یعنی ان کی بنا پر زیادہ سے زیادہ بس اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ ڈاروینی ارتقاء کا ویسا ہی امکان ہے جیسا براہ راست عمل تخلیق سے ایک ایک نوع کے الگ الگ وجود میں آنے کا امکان ہے۔
(ماخوذ از تفہیم القران )
🌹🌹🌹
🔰 *Quran Subjects* 🔰 *قرآن مضامین* 🔰
*"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25 آیت: 30]*
*کیا یہ لوگ قرآن پر تدبر ّنہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل پڑچکے ہیں[47:24]*
*قرآن کے پیغام کوپھیلانا "جہاد کبیرہ" ہے(25:52)*
🤷🏻♂️
*English*- https://QuranSubjects.wordpress.com
*Urdu*- https://Quransubjects. blogspot. com
https://flip.it/6zSSlW
*FB* - https://www.facebook.com/QuranSubject