Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

الله دل پر ‏کیوں مہر لگا تا ہے ؟


دینی مکالمہ بالمشافہ ہو یا سوشل میڈیا پر، علماء کے درمیان ہو یا مسلمانوں کے درمیان، ایک اہم بات جو کہ مشترک پائی جاتی ہے کہ ناممکن ہے کوئی ایک، دوسرے کے دلائل سے قائل ہو کر اپنے عقائد و نظریات میں معمولی سی بھی تبدیلی لانے پر تیار ہو- دلائل چاہے قرآن کی واضح ترین آیات محکمات سے ہوں یا مستند ترین متواتر احادیث سے بغیر کسی تاویل یا تشریح کے ، اگر یہ ان کے پسندیدہ مذہبی راہنما ، امام ، عا لم ، پیر کے نام سے منسوب عقائد و نظریات، یا عام رانے عامہ کے بر خلاف ہوں تو پھر بھی ناقابل قبول ہوتے ہیں- حالانکہ بروز حشر اللہ تعالی کے حضور ہم نے اکیلے پیش ہو کر جواب دہ ہونا ہے اور یہ لوگ ساتھ نہ ہوں گے نہ کوئی ذمہ داری قبول کرے گا- رسول اللہ ﷺ کو بھی شفاعت کی اجازت تب ملے گی جب الله تعالی کے عدل کے بعد گناہگار جہنم میں کوئلہ بن چکے ہوں گے( مسلم حدیث: 459)، خاین، بد دیانت کی شفاعت سے  رسول اللہ ﷺ صاف انکار کر دیں گے (بخاری، 3073)- اس سب کے باوجود لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے امتی ہیں تو بس اتنا ہی کافی ہے!

ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ کیا کسی کے پاس عقل نہیں یا قرآن و سنت سے موثر دلائل نہیں؟ کیا سب گمراہ ہیں یا سب صراط مستقیم پر؟ ایسا عملی اور عقلی طور پر ممکن نہیں کیونکہ ہر ایک اپنے آپ کو درست راستہ پر سمجھتا ہے اور مخالفین کو غلط ، گمراہ ، جہنمی! تو پھر آدھے جنتی اور آدھے جہنمی مگر کون سے آدھے؟ یہ سوال بہت ٹیڑھا ہے- یہ کوئی جدید مسئلہ نہیں ، یہ مسئلہ تو رسول اللہ ﷺ کے وقت بھی موجود تھا جب عمرو بن ہشام ابوالحکم ںے واضع ترین دلائل کی موجودگی میں اپنی ہٹ دھرمی اور تعصب کی وجہ سے اسلام قبول کرنے سے انکار کیا اور ابو جہل کا لقب حاصل کرکہ جہنم وصل ہوا- اسی رویہ اور سوچ کی وجہ سے ہمیشہ ایسے لوگ جو حق واضح ہونے کے باوجود اس کا انکار کرتے ہیں اللہ تعالی ان کو ضلالت اور گمراہی کے راستہ پر چھوڑ دیتا ہے بلکہ ان کے کان ، آنکھ عقل پر مہر کر دیتا ہے کہ وہ کچھ سمجھ نہیں پاتے اس کیفیت کو الله تعالی نے اپنی طرف سے ان کے دل پر مہر لگانے سے تعبیر کیا ہے- کیونکہ اللہ تعالی ہی ہمارا اور ہما رے اعمال کا خالق ہے- ابلیس بھی تو اللہ کی ہی تخلیق ہے جس کے زریعہ ہماری آزمائش ہو رہی ہے- اللہ تعالی زبردستی کسی کو ہدایت نہیں دیتا نہ زبردستی کسی کو گمراہ کرتا ہے بلکہ جب انسان اپنے ارادہ کی آزادی کو استعمال کرتے ہونے حق یا باطل کا راستہ اختیار کرتا ہے تو الله تعالی دونوں صورتوں میں اس کی مدد کرتا ہے- یہی امتحان اور آزمائش ہے!

چودہ صدیوں سے اسلام ، دین کامل میں ضرورت اور اجتہاد کے نام پر بہت کچھ دین کا حصہ بن چکا ہے جو کبھی بھی دین میں شامل نہ تھا بلکہ بہت سی ایسی چیزیں اہم ہو گیئں جن کی ممانعت تھی- اجتہاد اسلام کوہردورکی ضروریات کے مطابق مربوط ، متعلقہ (relevant) رکھتا ہے، مگر اساس اور اصولوں میں کسی قسم کی بنیادی تبدیلی کے بغیر جو کہ ابدی ہیں- مثلا ہم جنس پرستی حرام ہے تو اسے اجتہاد سے حلال نہیں قرار دیا جا سکتا کہ موجودہ دور کے انسانی حقوق (اقوام متحدہ کے "ہیومن رایٹس") میں یہ شامل ہو چکا ہے- جس طرح یہ بڑی مثال ہے بہت سی چھوٹی چھوٹی مثالیں ہیں جو تفرقہ اور فرقہ واریت کی وجوہ ہیں- یہ سب کچھ قرآن و سنت کو قبول کرنے اور ان پر عمل کرنے سے ختم ہو سکتا ہے- اگر ہم ہونے دل و دماغ کو کھلا رکھیں، قرآن و سنت ثابتہ کو حق و باطل کی کسوٹی قبول کریں تو ابوجہل بننے سے بچ سکتے ہیں جس کی ضد اور ہٹ دھرمی اس کے دل پر مہر لگنے کا سبب بن گئی-

بچاو کی صرف ایک صورت ہے کہ اللہ تعالی سے ہدایت حاصل کرنے اور گمراہی سے بچاو کی دعا کرتے رہیں اور جب آپ کو محسوس ہو کہ حق واضح ہو گیا ہے تو اسے قبول کرنے میں تردد نہ کریں- جو لوگ علم حاصل ہونے کے بعد بھی ضد اور ہٹ دھرمی اختیار کرتے ہیں تو وہ دل پر مہر کے حق دار ہیں- یاد رکھیں حق کا راستہ قرآن کا راستہ ہے-

اللہ کا فرمان ہے :

اَفَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ وَ اَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلۡمٍ وَّ خَتَمَ عَلٰی سَمۡعِہٖ وَ قَلۡبِہٖ وَ جَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشٰوَۃً ؕ فَمَنۡ یَّہۡدِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ اللّٰہِ ؕ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۲۳﴾

کبھی تم نے اُس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟ کیا تم ایسے شخص کو راہِ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ اُن سے بھی گئے گزرے (قرآن 44 ,25:43)

Have you seen he who has taken as his god his [own] desire, and Allah has sent him astray due to knowledge and has set a seal upon his hearing and his heart and put over his vision a veil? So who will guide him after Allah ? Then will you not be reminded? (Quran 45:23)

الله دل پر ‏مہر کیوں لگا تا ہے : https://bit.ly/SealedHearts

کیا آپ نے اسے بھی دیکھا؟ جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور اللہ نے علم کے باوجود اسے گمراہی میں پھینک دیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھ پر بھی پردہ ڈال دیا ہے اب ایسے شخص کو اللہ کے بعد کون ہدایت دے سکتا ہے ۔(قرآن 45:23)

“ اور اللہ نے علم کے باوجود اسے گمراہی میں پھینک دیا ہے” 
 اس کے دو معنی ہیں :
 ایک یہ کہ اللہ نے علم کے مطابق جانتے ہوئے اسے ضلالت میں پھینک دیا ۔ اس لیے کہ یہ ضلالت کا مستحق ہوگیا تھا۔ 
یا یہ کہ وہ اپنے طور پر عالم ہونے کے باوجود اسے گمراہی میں پھینک دیا گیا۔ اور اس کے علم و معرفت نے اس کو اس بات سے نہ روکا کہ وہ اپنی خواہشات کو الٰہ بنائے۔ یوں پھر اللہ نے اسے بھی ڈھیل دے دی اور گمراہی میں پھینک دیا۔ وختم علی سمعہ وقلبہ وجعل علی بصرہ غشوۃ (٤٥ : ٢٣) “ اور اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ”۔ لہٰذا وہ تمام روشن دان بند ہوگئے جن سے روشنی اندر آتی تھی اور وہ مدرکات بےکار ہوگئے جن کے ذریعہ سے ہدایت کسی شخص کے دل و دماغ میں داخل ہو سکتی تھی۔ اور انسان نے خواہشات نفسانیہ کو اس طرح قبول کرنا شروع کردیا کہ حصول ہدایت کے تمام راستے مسدود ہوگئے۔ فمن یھدیہ من بعد اللہ (٤٥ : ٢٣) “ اللہ کے بعد اب اور کون ہے جو اسے ہدایت دے ” ۔

ہر عمل  کا خالق الله ہے 
کاینات میں سب کچھ الله کے حکم ، ازن ، مرضی سے ہوتا ہے- اس لے ہمارے ہر کم کی نسبت اللہ کی طرف جاتی ہے مگر ہماری آزادی بھی الله کی عطا کردہ ہے اچھا کم کریں تو الله خوش ہوتا ہے برا کریں توکرنے دیتا ہے مگر خوش نہیں ہوتا -  
وَ اللّٰہُ خَلَقَکُمۡ وَ مَا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۹۶﴾
While Allah created you and that which you do?"[Quran 37:96]
حالانکہ تمہیں اور تمہاری بنائی ہوئی چیزوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے ۔(قرآن 37:96)
حالانکہ تم اور جو کام تم کرتے ہو اس کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ جس طرح تمہارا خالق ہے اسی طرح تمہارے افعال کا خالق بھی وہی ہے لہٰذا عبادت پر پرستش کا بھی وہی حقدار ہے جس کی ہمہ گیر خالقیت کے تمام اعراض اور جواہر محتاج ہیں۔ 
تمہارا عمل جو بھی تم کرتے ہو، ان کا خالق بھی اللہ ہے،  بندہ صرف  'کا سب اور عامل' ہے- اس سے واضح ہے کہ بندوں کے افعال کا خالق اللہ ہی ہے، جیسے اہل سنت کا عقیدہ ہے۔
آیت ٩٦{ وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ } ” جبکہ اللہ نے پیدا کیا ہے تمہیں بھی اور جو کچھ تم بناتے ہو (اس کو بھی) ۔ “ یہ آیت حکمت اور فلسفہ قرآنی کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔ اس حوالے سے اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ انسان ” کا سب ِعمل “ تو ہے مگر ” خالق عمل “ نہیں ہے۔ 
مثلاً میں ارادہ کرتا ہوں کہ اپنے سامنے پڑا ہوا پیالہ اٹھائوں۔ اس میں ارادے کی حد تک تو مجھے اختیار ہے مگر اللہ کے اذن کے بغیر اس پیالے کو اٹھانا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ اس میں بہت سے دوسرے عوامل بھی کارفرما ہوسکتے ہیں۔ میرے اٹھانے سے پہلے اس پیالے پر کوئی دوسری قوت بھی اثر انداز ہوسکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی وجہ سے میرا دماغ میرے ارادے یا فیصلے کو میرے ہاتھوں تک پہنچا بھی نہ پائے۔
 بہر حال انسان کا عمل دخل اس حوالے سے صرف ارادے تک محدود ہے اور اسی ارادے کے مطابق ہی وہ سزا یا جزا کا مستحق قرار پاتا ہے۔ مگر یہ بات طے ہے کہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی واقعہ یا کوئی عمل وقوع پذیر نہیں ہوسکتا۔(ڈاکٹر اسرار احمد (رح)
فرقہ قدریہ معتزلہ اور اہل سنت میں جس طرح اور چند مسئلوں میں بحث ہے اسی طرح یہ مسئلہ بھی بڑی بحث کا ہے۔ فرقہ قدریہ کا یہ مذہب ہے کہ بندہ جو کچھ کام کرتا ہے۔ وہ خود بندہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وہ کام بندہ میں پیدا نہیں کئے۔ اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ بندہ کی ذات اور سب اچھے برے بندہ کے کام اللہ کے پیدا کئے ہوئے ہیں۔ لیکن برے کام جب بندہ کرتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ ناخوش ہوتا ہے۔ اور اچھے کام کرنے سے خوش ہوتا ہے۔ اس مسئلہ کی بحث ایک ایسی بڑی بحث ہے۔ کہ امام بخاری اورعلماء نے اس باب میں بڑی بڑی کتابیں لکھی ہیں۔ یہ آیت بھی علمائے اہل سنت کی دلیلوں میں سے ایک دلیل ہے کیونکہ اس آیت سے بندہ کا اور بندے کے ہر ایک کام کا اللہ تعالیٰ کی جانب سے پیدا ہونا ثابت ہوتا ہے۔
صحیح سند سے رسالہ افعال عباد میں امام بخاری نے حذیفہ (رض) کی حدیث نقل کی ہے:
جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:
 اللہ تعالیٰ نے ہر کام والے اور اس کے ہر ایک کام کو پیدا کیا ہے۔
 یہ حدیث آیت کے ٹکڑے واللہ خلقکم و ماتعملون کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے۔ کہ ان بت پرستوں کی ذات اور اس ذات میں بت تراشی کی کاری گری یہ سب کچھ اللہ کا پیدا کیا ہے۔ اور اس کی مخلوق ہے۔ پھر ان بت پرستوں کو اتنی سمجھ نہیں۔ کہ مثلاً جس پتھر کے انہوں نے بت تراشے ہیں۔ بت تراشی سے پہلے تو وہ پتھر اللہ کی مخلوق میں داخل تھا۔ اب اس پتھر کی مورت بن گئی۔ تو اس میں یہ فوقیت کہاں سے آگئی۔ کہ اس کو مخلوقات کے دائرہ سے نکال کر خالق کا شریک ٹھہرایا جاوے۔ رہی یہ بات کہ جن اصلی صورتوں کی یہ مورتیں ہیں۔ ان کو خالق کا شریک ٹھہرا کر ان کی مورتوں کی تعظیم کی جاتی ہے تو یہ بات بھی غلط ہے۔ کیونکہ یہ سارے بت پرست جمع ہوجائیں تو سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی دوسرے کی پیدا کی ہوئی ادنیٰ سی چیز بھی نہیں دکھا سکتے۔ اس واسطے پہلے تو ابراہیم (علیہ السلام) نے قوم کے لوگوں کو یوں قائل کیا کہ تم لوگ اپنے ہاتھ سے تراشے ہوئے بتوں کی پوجا کرتے ہو۔ جو عقل کے خلاف ہے۔ پھر یوں قائل کیا کہ مخلوق کو مخلوق کی عبادت زیبا نہیں ہے۔

ہدایت تو اللہ ہی کی طرف سے ہے مگر کوشش انسان کرتا ہے 
اللہ کے سوا اور تو کوئی کسی کی ہدایت اور ضلالت کا کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ یہ تو اللہ کا خصوصی اختیار ہے اس میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اللہ کے مختار رسولوں کو بھی یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی کو ہدایت دے دیں۔ افلا تذکرون (٤٥ : ٢٣) “ کیا تم لوگ سبق نہیں لیتے ”۔ جس نے سبق لیا وہ ہوشمند رہا اور متنبہ ہوگیا۔ اور ہوائے نفس کے پھندے سے آزاد ہوگیا اور قرآن کے واضح اور مستقل منہاج پر گامزن ہوگیا جس پر چلنے والے کبھی گمراہ نہیں ہوئے۔   [ماخوز]

توفیق اور ہدایت اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، اللہ تعالی جسے چاہے ہدایت دیتا ہے، اور جسے گمراہ کرنا چاہے اسے گمراہ فرما دیتا ہے، فرمان باری تعالی ہے:
 ذَلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ
ترجمہ: یہ اللہ کی ہدایت ہے، وہ جسے چاہتا ہے  اس کے ذریعے راہ راست پر لے آتا ہے اور جسے اللہ گمراہ کر دے اسے کوئی راہ پر لانے والا نہیں۔ [الزمر: 23]
ایسے ہی فرمان باری تعالی ہے:
 مَنْ يَشَأِ اللَّهُ يُضْلِلْهُ وَمَنْ يَشَأْ يَجْعَلْهُ عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ
ترجمہ: جسے اللہ چاہے گمراہ کر دے اور جسے چاہے اسے صراط مستقیم پر چلا دے۔[الانعام: 39]
ایک اور مقام پر فرمایا:
مَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِي وَمَنْ يُضْلِلْ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ
ترجمہ: جسے اللہ ہدایت دے سو وہی ہدایت پانے والا ہے اور جنہیں وہ گمراہ کر دے سو وہی خسارہ اٹھانے والے ہیں۔ [الاعراف: 178]
ہر مسلمان اپنی نماز میں دعا کرتا ہے کہ:
  اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ  ترجمہ: ہمیں صراط مستقیم دکھا۔[الفاتحہ: 6] 
کیونکہ اسے علم ہے کہ ہدایت صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، لیکن اس کے باوجود انسان سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ہدایت کے اسباب اپنائے، صبر اور ثابت قدمی کے ساتھ راہ استقامت پر ڈٹا رہے، اللہ تعالی نے انسان کو روشن عقل سے نواز کر مکمل آزادی دی کہ خیر یا شر کچھ بھی کرے، راہ رو بنے یا گمراہ بن جائے، چنانچہ جس وقت انسان حقیقی اسباب اپناتا ہے اور اس بات کا بھی خصوصی اہتمام کرتا ہے کہ اللہ تعالی اسے مکمل ہدایت سے نوازے تو اللہ تعالی کی جانب سے اسے مکمل کامیابی ملتی ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
 وَكَذَلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِيَقُولُوا أَهَؤُلَاءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنْ بَيْنِنَا أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ
ترجمہ: اور اسی طرح ہم نے ان کو باہمی طور پر آزمائش میں ڈالا تاکہ وہ کہیں: کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے [ہدایت دے کر]ہم میں سے احسان فرمایا ہے ؟ کیا اللہ شکر کرنے والوں کو زیادہ جاننے والا نہیں ؟ [الانعام: 53]

کچھ لوگوں کے لئے یہ مسئلہ پیچیدہ بن جاتا ہے تو ابن عثیمین رحمہ اللہ نے اس کی کافی تفصیل بیان کی ہے کہ :

" سارے کا سارا معاملہ ہی اللہ تعالی کی مشیئت کے تحت ہے ، ہر چیز اسی کے ہاتھ میں ہے تو انسان کا اس میں کیا کردار؟ اگر اللہ تعالی نے اس کے مقدر میں گمراہی لکھی ہوئی ہے ہدایت اس کے مقدر میں نہیں ہے تو پھر انسان کیا کرے ؟
اس کے جواب کہ:
 اللہ تعالی اسی کو ہدایت دیتا ہے جو ہدایت کے لائق ہو، اور اسی کو گمراہ کرتا ہے جو گمراہی کا حق رکھتا ہو، فرمانِ باری تعالی ہے:

 فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ
ترجمہ: پس جب وہ لوگ ٹیڑھے ہی رہے تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا ۔ [الصف: 5]
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَنَسُوا حَظّاً مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ
ترجمہ: ان کے اپنا عہد توڑنے کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت کر دیا کہ وہ کلام کو اس کے محل سے بدل دیتے ہیں اور انہوں نے اس میں سے ایک حصہ بھلا دیا جس کی انہیں نصیحت کی گئی تھی۔ [المائدۃ: 13]
تو ان آیات میں اللہ تعالی نے بتلا دیا ہے کہ
 جس کو اللہ تعالی نے گمراہ کیا ہے اس کا سبب خود وہی بندہ ہے، 
اور  بندے کو تو معلوم ہی نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے اس کے مقدر میں کیا لکھا ہوا ہے؟
  کیونکہ بندے کو تقدیر کا علم ہی اس وقت ہوتا ہے جب تقدیر میں لکھا ہوا کام رونما ہو جاتا ہے، تو بندے کو اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا  کہ کیا اللہ تعالی نے اس کے لئے گمراہ ہونا لکھ دیا ہے یا ہدایت یافتہ ہونا لکھا ہے؟

یہ کیا طریقہ ہوا کہ وہ گمراہی کے راستے پر خود چلتا ہے اور پھر کہہ دیتا ہے کہ اللہ تعالی نے گمراہی پر چلنا ہی میرے لیے لکھا ہوا تھا!

یہ کیوں نہیں کرتا کہ راہ ہدایت پر چلے اور پھر کہے کہ اللہ تعالی نے مجھے راہ راست پر چلا دیا اور میرے لیے ہدایت لکھی ہوئی تھی!؟

تو کیا انسان کے لئے یہ مناسب ہو گا کہ جب کوئی گمراہی والا عمل کر لے تو جبری [تقدیر کو جبری قرار دینے والا]بن جائے، اور جب کوئی نیکی کرنے لگے تو قدری [تقدیر کا سرے سے انکار کرنے والا]بن جائے!

یہ طریقہ بالکل ٹھیک نہیں ہے؛ یعنی جب کوئی غلطی اور گناہ ہو جائے تو جبری لوگوں کا نظریہ اپنا لے اور کہنے لگے کہ: یہ معاملہ اللہ تعالی نے میرے کھاتے میں لکھ دیا تھا اور میں اللہ کے لکھے ہوئے سے باہر نہیں جا سکتا تھا!!

حقیقت یہ ہے کہ انسان کو قوت ارادی میں مکمل آزادی اور اختیار حاصل ہے، نیز ہدایت کا معاملہ رزق کے معاملے سے زیادہ پیچیدہ بھی نہیں ، کیونکہ اب سب انسانوں کو معلوم ہے کہ اس کا رزق لکھ دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود رزق کے لئے تگ و دو کرتا ہے، اس کے لئے اندرون اور بیرون ملک تک، دائیں اور بائیں ہر جانب کوشش کرتا ہے، یہ نہیں کرتا کہ گھر بیٹھا رہے اور کہے کہ اللہ تعالی نے میرے لیے رزق لکھ دیا ہے تو وہ رزق اب مجھ تک پہنچ کر رہے گا، بلکہ حصول رزق کے اسباب اپناتا ہے کہ رزق کا معاملہ بھی انسان کی کاوش اور محنت سے منسلک ہے، جیسے کہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے۔

تو جس طرح رزق اللہ تعالی نے لکھ دیا ہے بالکل اسی طرح عمل صالح اور بد اعمال بھی لکھ دئیے ہیں، لیکن یہ کیا کہ دنیاوی رزق کے لئے تو آپ پوری زمین کھنگال ماریں اور جب اخروی رزق اور جنت کمانے کی بات آئے تو آپ نیک عمل کرنا ہی چھوڑ دیں!!

رزق اور ہدایت دونوں کا معاملہ یکساں ہے، ان میں کوئی فرق نہیں ہے، تو جس طرح آپ حصولِ رزق کے لئے کوشش کرتے ہیں، اپنی زندگی طویل سے طویل تر کرنے کی جد و جہد میں لگے ہوئے ہیں کہ

 جیسے ہی کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے تو دنیا جہاں کے چکر لگاتے ہیں ، کسی ماہر معالج سے اپنا علاج کرواتے ہیں، حالانکہ آپ کو زندگی پھر بھی اتنی ہی ملنی ہے جتنی آپ کے لئے مقدر کر دی گئی ہے اس میں کسی قسم کی کمی یا زیادتی نہیں کی جائے گی؛ لیکن پھر بھی آپ اس صورت حال میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے گھر میں نہیں بیٹھے رہتے اور یہ نہیں کہتے کہ: میں اپنے گھر میں ہی حالت مرض میں پڑا رہتا ہوں، اگر اللہ تعالی نے میرے لئے زندگی میں اضافہ لکھ رکھا ہے تو میری زندگی میں اضافہ ہو جائے گا وگرنہ نہیں! بلکہ آپ اپنی پوری کوشش اور جانفشانی کے ساتھ ایسے معالج کی تلاش میں رہتے ہیں جو آپ کا علاج بھی کرے اور آپ کے نزدیک وہ ایسے معالجین میں بھی شامل ہو جس کے ہاتھوں میں اللہ تعالی نے آپ کے لئے شفا لکھ دی ہے۔

تو آخرت کے معاملے میں آپ کا وہی رویہ کیوں نہیں ہوتا جو آپ دنیاوی معاملات میں اپناتے ہیں؟! ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ تقدیر چھپایا گیا ایک راز ہے، آپ اسے جاننا بھی چاہیں تو نہیں جان سکتے۔

اب آپ دو راستوں کے سنگم پر ہیں، ایک راستہ آپ کو سلامتی، کامیابی، سعادت اور عزت کی جانب لے کر جانے والا ہے، اور دوسرا راستہ تباہی، حسرت اور رسوائی کی طرف لے جانے والا ہے۔

آپ دونوں راستوں کے اس سنگم میں مکمل با اختیار حالت میں کھڑے ہیں، اور آپ کے سامنے ایسی کوئی رکاوٹ نہیں ہے جو آپ کو دائیں جانب راستے پر چلنے سے روکے، نہ ہی بائیں جانب چلنے سے روکنے والی کوئی چیز ہے، آپ چاہیں تو دائیں جانب چلے جائیں اور چاہیں توں بائیں جانب چل نکلیں۔

تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے مکمل اختیار سے ہی کوئی کام کرتا ہے تو جیسے وہ دنیاوی معاملات میں اپنے اختیارات کو استعمال کرتا ہے، تو بالکل اسی طرح آخرت کے معاملات میں بھی مکمل صاحب اختیار ہوتا ہے، بلکہ آخرت کا راستہ تو دنیا کے بہت سے راستوں سے بالکل واضح ہے؛ 

کیونکہ آخرت کے راستوں کو واضح کرنے والا اللہ تعالی ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی آخرت کے راستے کو واضح فرمایا ہے، اور اسی کا لازمی تقاضا ہے کہ آخرت کا راستہ دنیاوی راستے سے زیادہ واضح ہو،
 لیکن اس کے باوجود بھی انسان دنیاوی معاملات میں خوب محنت اور تگ و دو کرتا ہے حالانکہ اس کے نتائج کی کوئی ضمانت بھی نہیں ہوتی، تاہم دوسری طرف آخرت کے معاملات میں بالکل لا پروا بن جاتا ہے حالانکہ آخرت کے راستے کے نتائج معلوم بھی ہیں اور ان کی ضمانت بھی ہے؛ کیونکہ یہ نتائج اللہ تعالی کے وعدے کے مطابق ملیں گے، اس لیے کہ اللہ تعالی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔

مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ انسان اپنے مکمل اختیار سے ہی ہر کام کرتا ہے، وہ جو چاہے بول سکتا ہے، لیکن اس کا ارادہ اور اختیار اللہ تعالی کے ارادے اور مشیئت کے ماتحت ہیں۔
اللہ تعالی کی مشیئت اللہ تعالی کی حکمت کے تابع ہے، 
 اللہ تعالی کی مشیئت مطلق اور حکمت سے باہر نہیں ہے، بلکہ وہ حکمت کے تابع ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کے اسمائے گرامی میں الحکیم بھی شامل ہے، اور حکیم اسے کہتے ہیں جو تمام امور کو کونی و شرعی ، عملی و تخلیقی ہر اعتبار سے حکمت بھرے انداز میں مکمل کرتا ہے، 

تو اللہ تعالی اپنی حکمت کے تحت جس متلاشی حق کے لئے چاہتا ہے ہدایت لکھ دیتا ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی جانتا ہے کہ وہ حق کا متلاشی ہے اور اس کا دل استقامت پر قائم ہے۔

اگر کوئی شخص ایسا نہیں ہے تو اس کے لئے گمراہی لکھ دیتا ہے، ایسا اس شخص کے لئے ہوتا ہے جس کو اسلام کی دعوت دی جائے تو اس کا سینہ تنگ ہو کر آسمان کی جانب چڑھنے لگتا ہے، تو اللہ تعالی کی حکمت ایسے شخص کے ہدایت یافتہ ہونے کو مسترد کرتی ہے، الّا کہ اللہ تعالی اس کے دل میں نیا ولولہ پیدا فرما دے اور اس کے ارادوں کو صحیح سمت دے دے، اللہ تعالی تو ہر چیز پر قادر ہے، لیکن حکمت الہی کا تقاضا ہے کہ اسباب اور مسبب دونوں کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے، دونوں الگ الگ نہیں ہو سکتے۔" اختصار کے ساتھ اقتباس مکمل ہوا۔
" رسالة في القضاء والقدر " (ص14-21)
مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں مسلمان قضا و قدر پر ایمان اور مکلف انسان پر عائد ذمہ داری کے مسئلے کو سمجھ سکتا ہے، نیز یہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ اس پر کس طرح انسان کی نیک بختی اور بد بختی مرتب ہوتی ہے، چنانچہ ہدایت اور جنت میں داخلہ عمل صالح کی بنا پر ہو گا، اللہ تعالی نے اہل جنت کے بارے میں فرمایا:
 وَنُودُوا أَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ
ترجمہ: اور انہیں آواز دی جائے گی کہ یہی وہ جنت ہے تم جس کے وارث اپنے اعمال کے بدلے بنائے گئے ہو ۔ [الاعراف: 43]
ایک اور مقام پر فرمایا:
 ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ
 ترجمہ: تم اپنے کیے ہوئے اعمال کے بدلے جنت میں داخل ہو جاؤ۔ [النحل: 32]
جبکہ دوسری جانب گمراہی اور جہنم میں داخلے کا سبب اللہ کی نافرمانی اور اللہ کی اطاعت گزاری سے رو گردانی ہے، اللہ تعالی نے جہنمی لوگوں کے بارے میں فرمایا:
 ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا ذُوقُوا عَذَابَ الْخُلْدِ هَلْ تُجْزَوْنَ إِلَّا بِمَا كُنْتُمْ تَكْسِبُونَ
ترجمہ: پھر ظالموں سے کہا جائے گا کہ ابدی عذاب کا مزا چکھو۔ یہ تمہیں انہی کاموں کے بدلے دیا جاتا ہے جو تم کرتے رہے ہو۔[یونس: 52]
ایسے ہی ایک اور مقام پر فرمایا:
 وَذُوقُوا عَذَابَ الْخُلْدِ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ
ترجمہ: تم اپنے کیے ہوئے اعمال کے بدلے ہمیشگی کا عذاب چکھو۔ [السجدۃ: 14]
تو ایسی صورت میں مسلمان اپنا پہلا قدم ہی صحیح راستے اور سمت میں رکھتے ہوئے ایک لمحہ بھی عمل کے بغیر نہیں گزارتا یا اس لمحے میں ایسا کام کرتا ہے جو اللہ تعالی کی طرف لے جانے والا ہے، اور ساتھ ساتھ اللہ تعالی کے سامنے عاجزی، انکساری بھی اپناتا ہے، اور اس چیز کا بھر پور ادراک رکھتا ہے کہ اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہی آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں، اس لیے ہمیشہ اور دائمی طور پر اسی کے سامنے اپنی فقیری رکھتا ہے، ہمیشہ متمنی رہتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی توفیق اور اسی کی طرف سے ملنے والی صحیح سمت کا طلب گار ہے۔ [ماخوز بشکریہ اسلام سوال و جواب ]

 یہ تو ظاہر ہے کہ کوئی کافر بھی اپنی نفسانی خواہشات کو اپنا خدا یا معبود نہیں کہتا مگر قرآن کریم کی اس آیت نے یہ بتلایا کہ عبادت در حقیقت اطاعت کا نام ہے جو شخص خدا کی اطاعت کے مقابلے میں کسی دوسرے کی اطاعت اختیار کرے وہ ہی اس کا معبود کہلائے گا تو جس شخص کو حلال و حرام اور جائز ناجائز کی پروا نہ ہو خدا تعالیٰ نے جس کو حرام کہا ہے وہ اس میں خدا کا حکم ماننے کے بجائے اپنے نفس کی پیروی کرے تو گو وہ اپنے نفس کو زبان سے اپنا معبود نہ کہے مگر حقیقتہ وہی اس کا معبود ہوا-
 جب انسان اعتقاد باطل بامحرمات کے ارتکاب میں حد کو پہنچ جاتا ہے اور کسی طرح حق کی طرف ( التفات نہیں کرنا تو اس کی ہیئت نفسانی کچھ ایسی بن جاتی ہے کہ گناہوں کو اچھا سمجھنا اس کی خوبن جاتی ہے ۔ گویا اس کے دل پر مہر لگ جاتی ہے ۔
اس مہر اور اس پردے کی کیفیت کا عملی مشاہدہ کرنا ہو تو آج کے سائنسدانوں کو دیکھ لیجیے۔ انہوں نے سات سمندروں کے پانیوں کو کھنگال مارا ہے ‘ روئے ارضی کے ذرّے ذرّے کی چھان پھٹک وہ کرچکے ہیں۔ خلا کی وسعتوں کے اندر دور دور تک وہ جھانک آئے ہیں۔ غرض سائنسی کرشموں کے سبب انہوں نے کائنات کے بڑے بڑے رازوں کو طشت ازبام کردیا ہے ‘ لیکن اس پوری کائنات میں اگر انہیں نظر نہیں آیا تو ایک اللہ نظر نہیں آیا ! مذکورہ ” پردہ “ ان کی آنکھوں پر اس قدر دبیز ہوچکا ہے کہ اس پوری کائنات میں کائنات کے خالق کا انہیں کہیں سراغ نہیں ملا۔ { فَمَنْ یَّہْدِیْہِ مِنْم بَعْدِ اللّٰہِط اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ } ” تو اللہ کے (اس فیصلے کے ) بعداب کون اسے ہدایت دے سکتا ہے ‘ تو کیا تم لوگ نصیحت حاصل نہیں کرتے ؟ “

ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الھدی و یتبع غیر سبیل المومنین نولہ ماتولی و نصلہ جھنم وسآء ت مصیراً  (النساء :115)

” اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے، اس کے بعد کہ اس کے لئے ہدایت خوب واضح ہوچکی اور مومنوں کے راستے کے سوا (کسی اور) کی پیروی کرے، ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے جس طرح وہ پھرے گا اور ہم اسے جہنم میں جھونکیں گے اور وہ بری لوٹنے کی جگہ ہے۔ “  (النساء :115)

ابتداء میں سب کے پاس حق یا باطل اختیار کرنےاختیار ہے- مگر جب کوئی سب کچھ جانتے ہوے ہٹ دھرمی سے حق کا انکار کر کہ گمراہی اختیار کرتا ہے تو الله اس کو اسی راستہ پر چھوڑ دیتا ہے اس کی مدد نہیں کرتا- یہ ہے دلوں پر مہر کیونکہ سب کچھ اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے تو اس کو اللہ کی جانب کہا گیا حالانکہ یہ فرد کے اپنے اختیار سے گمراہی کا رستہ چننے کا  نتیجہ ہے- 

 حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
"آدمی اپنی خواہشات کو جب تک میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کرے تب تک وہ ایمان دار نہیں ہوسکتا۔ “ 
 ١۔ جو شخص اپنے نفس کا غلام بن جائے اللہ تعالیٰ اسے ہدایت نہیں دیتا۔ 
٢۔ جس کی گمراہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دے وہ بھی ہدایت نہیں پاسکتا۔
٣۔ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے ارشادات سے نصیحت حاصل کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اپنی اور لوگوں کی خواہشات کے پیچھے لگنے والا شخص گمراہ ہوتا ہے : 
٤۔ لوگوں کی خواہشات کے پیچھے لگنے والا گمراہ ہوتا ہے۔ (صٓ: ٢٦) 
٥۔ اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والا تباہ ہوجا تا ہے۔ (طٰہٰ : ١٦) 
٦۔ سب سے بڑا گمراہ اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والا ہے۔ (القصص : ٥٠) 
٧۔ خواہشات کی پیروی کرنے والا خواہشات کو الٰہ بنا لیتا ہے۔ (الفرقان : ٤٣) 
٨۔ حق کو چھوڑ کر خواہشات کی پیروی کرنے سے زمین و آسمان میں فساد پیدا ہوتا ہے۔ (المؤمنون : ٧١)

پھر کیا تم نے کبھی اُس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اُسے گمراہی میں پھینک دیا اور اُس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اُس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا؟ اللہ کے بعد اب اور کون ہے جو اُسے ہدایت دے؟ کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں لیتے؟ (45:23) 

 سب مذہبی فرقوں کے بانی عموماً عالم اور ذہین لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔ جو اپنی خواہشات کے پیچھے لگ کر کتاب و سنت میں تاویل کرکے اپنا نظریہ کشید کرلیتے ہیں-

وما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھویٰ فان الجنۃھی الماوی) (النازعات :31, 30)” 
اور باوجود اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اور اس نے نفس کو خواہش سے روک لیا۔ تو بیشک جنت ہی (اس کا) ٹھکانا ہے  (النازعات :31, 30)

جو لوگ  تاریخ سے زوال اقوام کے سبق آموز حقائق سے تغافل برتتے رہے ، اللہ ہم ان کےدِلوں پر مُہر لگا دیتے ہیں، پھر وہ کچھ نہیں سُنتے: 

اَوَلَمۡ يَهۡدِ لِلَّذِيۡنَ يَرِثُوۡنَ الۡاَرۡضَ مِنۡۢ بَعۡدِ اَهۡلِهَاۤ اَنۡ لَّوۡ نَشَآءُ اَصَبۡنٰهُمۡ بِذُنُوۡبِهِمۡ‌ ۚ وَنَطۡبَعُ عَلٰى قُلُوۡبِهِمۡ فَهُمۡ لَا يَسۡمَعُوۡنَ ۞ 
ترجمہ:
اور کیا اُن لوگوں کو جو سابق اہلِ زمین کے بعد زمین کے وارث ہوتے ہیں، اِس امر ِواقعی نے کچھ سبق نہیں دیا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے قصوروں پر انہیں پکڑ سکتے ہیں؟ ( مگر وہ سبق آموز حقائق سے تغافل برتتے رہے) اور ہم ان کےدِلوں پر مُہر لگا دیتے ہیں، پھر وہ کچھ نہیں سُنتے۔ (القرآن - سورۃ نمبر 7 الأعراف آیت نمبر 100)

ایک گرنے والی قوم کی جگہ جو دوسری قوم اٹھتی ہے اس کے لیے اپنی پیش رو قوم کے زوال میں کافی رہنمائی موجود ہوتی ہے۔ 
وہ اگر عقل سے کام لے تو سمجھ سکتی ہے کہ کچھ مدّت پہلے جو لوگ اسی جگہ داد عیش دے رہے تھے اور جن کی عظمت کا جھنڈا یہاں لہرا رہا تھا انہیں فکر وعمل کی کن غلطیوں نے برباد کیا، اور یہ بھی محسوس کرسکتی ہے کہ جس بالا تر اقتدار نے کر انہیں ان کی غلطیوں پر پکڑا تھا اور ان سے یہ جگہ خالی کرالی تھی، وہ آج کہیں چلا نہیں گیا ہے، نہ اس سے کسی نے یہ مقدرت چھین لی ہے کہ اس جگہ کے موجودہ ساکنین اگر وہی غلطیاں کریں جو سابق ساکنین کر رہے تھے تو وہ ان سے بھی اسی طرح جگہ خالی نہ کرا سکے گا جس طرح اس نے ان سے خالی کرائی تھی۔

یعنی جب وہ تاریخ سے اور عبرتناک آثار کے مشاہدے سے سبق نہیں لیتے اور اپنے آپ کو خود بھلاوے میں ڈالتے ہیں تو پھر خدا کی طرف سے بھی انہیں سوچنے سمجھنے اور کسی ناصح کی بات سننے کی توفیق نہیں ملتی۔ خدا کا قانون فطرت یہی ہے کہ جو اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہے اس کی بینائی تک آفتاب روشن کی کوئی کرن نہیں پہنچ سکتی اور جو خود نہیں سننا چاہتا اسے پھر کوئی کچھ نہیں سنا سکتا۔

”ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں، پھر وہ کچھ نہیں سنتے“

 یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ *دلوں پر مہر لگانے سے مراد ذہن انسانی کا اس نفسیاتی قانون کی زد میں آجانا ہے جس کی رو سے ایک دفعہ جاہلی تعصبات یا نفسانی اغراض کی بنا پر حق سے منہ موڑ لینے کے بعد پھر انسان اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کے الجھاؤ میں الجھتا ہی چلا جاتا ہے اور کسی دلیل، کسی مشاہدے اور کسی تجر بے سے اس کے دل کے دروازے قبول حق کے لیے نہیں کھلتے۔

خَتَمَ اللّٰهُ عَلَىٰ قُلُوۡبِهِمۡ وَعَلٰى سَمۡعِهِمۡ‌ؕ وَعَلٰىٓ اَبۡصَارِهِمۡ غِشَاوَةٌ  وَّلَهُمۡ عَذَابٌ عَظِيۡمٌ  ( القرآن 2:7)
ترجمہ:
اللہ نے اُن کے دلوں اور ان کے کانوں پر مُہرلگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑگیاہے۔وہ سخت سزا کے مستحق ہیں  ( القرآن 2:7)

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ نے مہر لگا دی تھی، اس لیے انہوں نے تسلیم کرنے سے انکار کیا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ "جب انہوں نے ان بنیادی امور کو رد کردیا جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، اور اپنے لیے قرآن کے پیش کردہ راستہ کے خلاف دوسرا راستہ پسند کرلیا، تو اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی۔" 
اس مہر لگنے کی کیفیت کا تجربہ ہر اس شخص کو ہوگا جسے کبھی تبلیغ کا اتفاق ہوا ہو۔ جب کوئی شخص آپ کے پیش کردہ طریقے کو جانچنے کے بعد ایک دفعہ رد کردیتا ہے، تو اس کا ذہن کچھ اس طرح مخالف سمت میں چل پڑتا ہے کہ پھر آپ کی کوئی بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی، آپ کی دعوت کے لیے اس کے کان بہرے، اور آپ کے طریقے کی خوبیوں کے لیے اس کی آنکھیں اندھی ہوجاتی ہیں، اور صریح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ فی الواقع اس کے دل پر مہر لگی ہوئی ہے۔

اللہ تعالی سے ہدایت حاصل کرنے اور گمراہی سے بچاو کی دعا کرتے رہیں اور جب محسوس ہو کہ حق واضح ہو گیا ہے تو اسے قبول کرنے میں تردد نہ کریں- جو لوگ علم حاصل ہونے کے بعد بھی ضد اور ہٹ دھرمی اختیار کرتے ہیں تو وہ دل پر مہر کے حق دار ہیں- یاد رکھیں حق کا راستہ قرآن کا راستہ ہے-
♡ ♡ ♡ ♡ ♡ ♡ ♡ ♡ ♡ ♡ ♡

*Don't Discard Quran  قرآن کو نظر انداز مت کریں*

*قرآن ہدایت کی واحد، آخری ، مکمل ، محفوظ کتاب اللہ ہے ، بلاشک و شبہ* جبکہ باقی تمام کتابیں انسانی تحریریں، جو مکمل ہونے، غلطی، شک و شبہ سے مبرا ہونے کا دعوی نہیں کر سکتیں. مگر پھر بھی مسلمان قرآن کو نظر انداز کرتے ہیں: 
*"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" ( الفرقان 25  آیت: 30)*

*Quran is the Only Last, Complete, Protected Divine Book of Guidance, without any doubt*, all other books are human efforts, cannot claim to be complete, free from error and doubt, yet Muslims have discarded Quran: 
*"The Messenger will say, Lord, my people did indeed discard the Quran" (Quran 25:30)*
احکام القران 
احکام القرآن - پی ڈی ایف بک 
الله دل پر ‏مہر کیوں لگا تا ہے 
علم الحديث کے سنہری اصول :


مزید 》》》》》Rise and fall of Nations – Law of Quran (قرآن کا قانون عروج و زوال اقوام)

Popular Books