توفیق اور ہدایت اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، اللہ تعالی جسے چاہے ہدایت دیتا ہے، اور جسے گمراہ کرنا چاہے اسے گمراہ فرما دیتا ہے، فرمان باری تعالی ہے:
ذَلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ
ترجمہ: یہ اللہ کی ہدایت ہے، وہ جسے چاہتا ہے اس کے ذریعے راہ راست پر لے آتا ہے اور جسے اللہ گمراہ کر دے اسے کوئی راہ پر لانے والا نہیں۔ [الزمر: 23]
ایسے ہی فرمان باری تعالی ہے:
مَنْ يَشَأِ اللَّهُ يُضْلِلْهُ وَمَنْ يَشَأْ يَجْعَلْهُ عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ
ترجمہ: جسے اللہ چاہے گمراہ کر دے اور جسے چاہے اسے صراط مستقیم پر چلا دے۔[الانعام: 39]
ایک اور مقام پر فرمایا:
مَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِي وَمَنْ يُضْلِلْ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ
ترجمہ: جسے اللہ ہدایت دے سو وہی ہدایت پانے والا ہے اور جنہیں وہ گمراہ کر دے سو وہی خسارہ اٹھانے والے ہیں۔ [الاعراف: 178]
ہر مسلمان اپنی نماز میں دعا کرتا ہے کہ:
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ترجمہ: ہمیں صراط مستقیم دکھا۔[الفاتحہ: 6]
کیونکہ اسے علم ہے کہ ہدایت صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، لیکن اس کے باوجود انسان سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ہدایت کے اسباب اپنائے، صبر اور ثابت قدمی کے ساتھ راہ استقامت پر ڈٹا رہے، اللہ تعالی نے انسان کو روشن عقل سے نواز کر مکمل آزادی دی کہ خیر یا شر کچھ بھی کرے، راہ رو بنے یا گمراہ بن جائے، چنانچہ جس وقت انسان حقیقی اسباب اپناتا ہے اور اس بات کا بھی خصوصی اہتمام کرتا ہے کہ اللہ تعالی اسے مکمل ہدایت سے نوازے تو اللہ تعالی کی جانب سے اسے مکمل کامیابی ملتی ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَكَذَلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِيَقُولُوا أَهَؤُلَاءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنْ بَيْنِنَا أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ
ترجمہ: اور اسی طرح ہم نے ان کو باہمی طور پر آزمائش میں ڈالا تاکہ وہ کہیں: کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے [ہدایت دے کر]ہم میں سے احسان فرمایا ہے ؟ کیا اللہ شکر کرنے والوں کو زیادہ جاننے والا نہیں ؟ [الانعام: 53]
کچھ لوگوں کے لئے یہ مسئلہ پیچیدہ بن جاتا ہے تو ابن عثیمین رحمہ اللہ نے اس کی کافی تفصیل بیان کی ہے کہ :
" سارے کا سارا معاملہ ہی اللہ تعالی کی مشیئت کے تحت ہے ، ہر چیز اسی کے ہاتھ میں ہے تو انسان کا اس میں کیا کردار؟ اگر اللہ تعالی نے اس کے مقدر میں گمراہی لکھی ہوئی ہے ہدایت اس کے مقدر میں نہیں ہے تو پھر انسان کیا کرے ؟
اس کے جواب کہ:
اللہ تعالی اسی کو ہدایت دیتا ہے جو ہدایت کے لائق ہو، اور اسی کو گمراہ کرتا ہے جو گمراہی کا حق رکھتا ہو، فرمانِ باری تعالی ہے:
فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ
ترجمہ: پس جب وہ لوگ ٹیڑھے ہی رہے تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا ۔ [الصف: 5]
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَنَسُوا حَظّاً مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ
ترجمہ: ان کے اپنا عہد توڑنے کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت کر دیا کہ وہ کلام کو اس کے محل سے بدل دیتے ہیں اور انہوں نے اس میں سے ایک حصہ بھلا دیا جس کی انہیں نصیحت کی گئی تھی۔ [المائدۃ: 13]
تو ان آیات میں اللہ تعالی نے بتلا دیا ہے کہ
جس کو اللہ تعالی نے گمراہ کیا ہے اس کا سبب خود وہی بندہ ہے،
اور بندے کو تو معلوم ہی نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے اس کے مقدر میں کیا لکھا ہوا ہے؟
کیونکہ بندے کو تقدیر کا علم ہی اس وقت ہوتا ہے جب تقدیر میں لکھا ہوا کام رونما ہو جاتا ہے، تو بندے کو اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ کیا اللہ تعالی نے اس کے لئے گمراہ ہونا لکھ دیا ہے یا ہدایت یافتہ ہونا لکھا ہے؟
یہ کیا طریقہ ہوا کہ وہ گمراہی کے راستے پر خود چلتا ہے اور پھر کہہ دیتا ہے کہ اللہ تعالی نے گمراہی پر چلنا ہی میرے لیے لکھا ہوا تھا!
یہ کیوں نہیں کرتا کہ راہ ہدایت پر چلے اور پھر کہے کہ اللہ تعالی نے مجھے راہ راست پر چلا دیا اور میرے لیے ہدایت لکھی ہوئی تھی!؟
تو کیا انسان کے لئے یہ مناسب ہو گا کہ جب کوئی گمراہی والا عمل کر لے تو جبری [تقدیر کو جبری قرار دینے والا]بن جائے، اور جب کوئی نیکی کرنے لگے تو قدری [تقدیر کا سرے سے انکار کرنے والا]بن جائے!
یہ طریقہ بالکل ٹھیک نہیں ہے؛ یعنی جب کوئی غلطی اور گناہ ہو جائے تو جبری لوگوں کا نظریہ اپنا لے اور کہنے لگے کہ: یہ معاملہ اللہ تعالی نے میرے کھاتے میں لکھ دیا تھا اور میں اللہ کے لکھے ہوئے سے باہر نہیں جا سکتا تھا!!
حقیقت یہ ہے کہ انسان کو قوت ارادی میں مکمل آزادی اور اختیار حاصل ہے، نیز ہدایت کا معاملہ رزق کے معاملے سے زیادہ پیچیدہ بھی نہیں ، کیونکہ اب سب انسانوں کو معلوم ہے کہ اس کا رزق لکھ دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود رزق کے لئے تگ و دو کرتا ہے، اس کے لئے اندرون اور بیرون ملک تک، دائیں اور بائیں ہر جانب کوشش کرتا ہے، یہ نہیں کرتا کہ گھر بیٹھا رہے اور کہے کہ اللہ تعالی نے میرے لیے رزق لکھ دیا ہے تو وہ رزق اب مجھ تک پہنچ کر رہے گا، بلکہ حصول رزق کے اسباب اپناتا ہے کہ رزق کا معاملہ بھی انسان کی کاوش اور محنت سے منسلک ہے، جیسے کہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے۔
تو جس طرح رزق اللہ تعالی نے لکھ دیا ہے بالکل اسی طرح عمل صالح اور بد اعمال بھی لکھ دئیے ہیں، لیکن یہ کیا کہ دنیاوی رزق کے لئے تو آپ پوری زمین کھنگال ماریں اور جب اخروی رزق اور جنت کمانے کی بات آئے تو آپ نیک عمل کرنا ہی چھوڑ دیں!!
رزق اور ہدایت دونوں کا معاملہ یکساں ہے، ان میں کوئی فرق نہیں ہے، تو جس طرح آپ حصولِ رزق کے لئے کوشش کرتے ہیں، اپنی زندگی طویل سے طویل تر کرنے کی جد و جہد میں لگے ہوئے ہیں کہ
جیسے ہی کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے تو دنیا جہاں کے چکر لگاتے ہیں ، کسی ماہر معالج سے اپنا علاج کرواتے ہیں، حالانکہ آپ کو زندگی پھر بھی اتنی ہی ملنی ہے جتنی آپ کے لئے مقدر کر دی گئی ہے اس میں کسی قسم کی کمی یا زیادتی نہیں کی جائے گی؛ لیکن پھر بھی آپ اس صورت حال میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے گھر میں نہیں بیٹھے رہتے اور یہ نہیں کہتے کہ: میں اپنے گھر میں ہی حالت مرض میں پڑا رہتا ہوں، اگر اللہ تعالی نے میرے لئے زندگی میں اضافہ لکھ رکھا ہے تو میری زندگی میں اضافہ ہو جائے گا وگرنہ نہیں! بلکہ آپ اپنی پوری کوشش اور جانفشانی کے ساتھ ایسے معالج کی تلاش میں رہتے ہیں جو آپ کا علاج بھی کرے اور آپ کے نزدیک وہ ایسے معالجین میں بھی شامل ہو جس کے ہاتھوں میں اللہ تعالی نے آپ کے لئے شفا لکھ دی ہے۔
تو آخرت کے معاملے میں آپ کا وہی رویہ کیوں نہیں ہوتا جو آپ دنیاوی معاملات میں اپناتے ہیں؟! ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ تقدیر چھپایا گیا ایک راز ہے، آپ اسے جاننا بھی چاہیں تو نہیں جان سکتے۔
اب آپ دو راستوں کے سنگم پر ہیں، ایک راستہ آپ کو سلامتی، کامیابی، سعادت اور عزت کی جانب لے کر جانے والا ہے، اور دوسرا راستہ تباہی، حسرت اور رسوائی کی طرف لے جانے والا ہے۔
آپ دونوں راستوں کے اس سنگم میں مکمل با اختیار حالت میں کھڑے ہیں، اور آپ کے سامنے ایسی کوئی رکاوٹ نہیں ہے جو آپ کو دائیں جانب راستے پر چلنے سے روکے، نہ ہی بائیں جانب چلنے سے روکنے والی کوئی چیز ہے، آپ چاہیں تو دائیں جانب چلے جائیں اور چاہیں توں بائیں جانب چل نکلیں۔
تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے مکمل اختیار سے ہی کوئی کام کرتا ہے تو جیسے وہ دنیاوی معاملات میں اپنے اختیارات کو استعمال کرتا ہے، تو بالکل اسی طرح آخرت کے معاملات میں بھی مکمل صاحب اختیار ہوتا ہے، بلکہ آخرت کا راستہ تو دنیا کے بہت سے راستوں سے بالکل واضح ہے؛
کیونکہ آخرت کے راستوں کو واضح کرنے والا اللہ تعالی ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی آخرت کے راستے کو واضح فرمایا ہے، اور اسی کا لازمی تقاضا ہے کہ آخرت کا راستہ دنیاوی راستے سے زیادہ واضح ہو،
لیکن اس کے باوجود بھی انسان دنیاوی معاملات میں خوب محنت اور تگ و دو کرتا ہے حالانکہ اس کے نتائج کی کوئی ضمانت بھی نہیں ہوتی، تاہم دوسری طرف آخرت کے معاملات میں بالکل لا پروا بن جاتا ہے حالانکہ آخرت کے راستے کے نتائج معلوم بھی ہیں اور ان کی ضمانت بھی ہے؛ کیونکہ یہ نتائج اللہ تعالی کے وعدے کے مطابق ملیں گے، اس لیے کہ اللہ تعالی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔
مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ انسان اپنے مکمل اختیار سے ہی ہر کام کرتا ہے، وہ جو چاہے بول سکتا ہے، لیکن اس کا ارادہ اور اختیار اللہ تعالی کے ارادے اور مشیئت کے ماتحت ہیں۔
اللہ تعالی کی مشیئت اللہ تعالی کی حکمت کے تابع ہے،
اللہ تعالی کی مشیئت مطلق اور حکمت سے باہر نہیں ہے، بلکہ وہ حکمت کے تابع ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کے اسمائے گرامی میں الحکیم بھی شامل ہے، اور حکیم اسے کہتے ہیں جو تمام امور کو کونی و شرعی ، عملی و تخلیقی ہر اعتبار سے حکمت بھرے انداز میں مکمل کرتا ہے،
تو اللہ تعالی اپنی حکمت کے تحت جس متلاشی حق کے لئے چاہتا ہے ہدایت لکھ دیتا ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی جانتا ہے کہ وہ حق کا متلاشی ہے اور اس کا دل استقامت پر قائم ہے۔
اگر کوئی شخص ایسا نہیں ہے تو اس کے لئے گمراہی لکھ دیتا ہے، ایسا اس شخص کے لئے ہوتا ہے جس کو اسلام کی دعوت دی جائے تو اس کا سینہ تنگ ہو کر آسمان کی جانب چڑھنے لگتا ہے، تو اللہ تعالی کی حکمت ایسے شخص کے ہدایت یافتہ ہونے کو مسترد کرتی ہے، الّا کہ اللہ تعالی اس کے دل میں نیا ولولہ پیدا فرما دے اور اس کے ارادوں کو صحیح سمت دے دے، اللہ تعالی تو ہر چیز پر قادر ہے، لیکن حکمت الہی کا تقاضا ہے کہ اسباب اور مسبب دونوں کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے، دونوں الگ الگ نہیں ہو سکتے۔" اختصار کے ساتھ اقتباس مکمل ہوا۔
" رسالة في القضاء والقدر " (ص14-21)
مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں مسلمان قضا و قدر پر ایمان اور مکلف انسان پر عائد ذمہ داری کے مسئلے کو سمجھ سکتا ہے، نیز یہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ اس پر کس طرح انسان کی نیک بختی اور بد بختی مرتب ہوتی ہے، چنانچہ ہدایت اور جنت میں داخلہ عمل صالح کی بنا پر ہو گا، اللہ تعالی نے اہل جنت کے بارے میں فرمایا:
وَنُودُوا أَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ
ترجمہ: اور انہیں آواز دی جائے گی کہ یہی وہ جنت ہے تم جس کے وارث اپنے اعمال کے بدلے بنائے گئے ہو ۔ [الاعراف: 43]
ایک اور مقام پر فرمایا:
ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ
ترجمہ: تم اپنے کیے ہوئے اعمال کے بدلے جنت میں داخل ہو جاؤ۔ [النحل: 32]
جبکہ دوسری جانب گمراہی اور جہنم میں داخلے کا سبب اللہ کی نافرمانی اور اللہ کی اطاعت گزاری سے رو گردانی ہے، اللہ تعالی نے جہنمی لوگوں کے بارے میں فرمایا:
ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا ذُوقُوا عَذَابَ الْخُلْدِ هَلْ تُجْزَوْنَ إِلَّا بِمَا كُنْتُمْ تَكْسِبُونَ
ترجمہ: پھر ظالموں سے کہا جائے گا کہ ابدی عذاب کا مزا چکھو۔ یہ تمہیں انہی کاموں کے بدلے دیا جاتا ہے جو تم کرتے رہے ہو۔[یونس: 52]
ایسے ہی ایک اور مقام پر فرمایا:
وَذُوقُوا عَذَابَ الْخُلْدِ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ
ترجمہ: تم اپنے کیے ہوئے اعمال کے بدلے ہمیشگی کا عذاب چکھو۔ [السجدۃ: 14]
تو ایسی صورت میں مسلمان اپنا پہلا قدم ہی صحیح راستے اور سمت میں رکھتے ہوئے ایک لمحہ بھی عمل کے بغیر نہیں گزارتا یا اس لمحے میں ایسا کام کرتا ہے جو اللہ تعالی کی طرف لے جانے والا ہے، اور ساتھ ساتھ اللہ تعالی کے سامنے عاجزی، انکساری بھی اپناتا ہے، اور اس چیز کا بھر پور ادراک رکھتا ہے کہ اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہی آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں، اس لیے ہمیشہ اور دائمی طور پر اسی کے سامنے اپنی فقیری رکھتا ہے، ہمیشہ متمنی رہتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی توفیق اور اسی کی طرف سے ملنے والی صحیح سمت کا طلب گار ہے۔ [ماخوز بشکریہ اسلام سوال و جواب ]