Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

دس احکام Ten Commandments


اللہ نے انسانی زندگی کو منضبط کرنے کے لیے  پابندیاں عائد کی ہیں اور جو ہمیشہ سے شرائع الٰہیہ کی اصل الاُصُول رہی ہیں۔ جو قرآن و بائیبل (تو رات ) دس احکام  کے طور  مشہور ہیں:
 [تو رات (بائیبل ، عہد نامہ قدیم ، کتاب خروج باب 20)]
تب خدا نے یہ ساری باتیں کہیں ،
1, “ میں خدا وند تمہارا خدا ہوں۔ میں تمہیں ملک مصر سے باہر لایا جہاں تم غُلام تھے۔ “تمہیں میرے علا وہ کسی دوسرے خدا ؤں کی عبادت نہیں کرنی چاہئے۔
 2,“ تمہیں کو ئی بھی مورتی نہیں بنا نا چاہئے۔ کسی بھی اس چیز کی تصویر یا بُت مت بناؤ جو اوپر آسمان میں یا نیچے زمین میں ہو یا پانی کے نیچے ہو۔  
بُتوں کی پرستش یا کسی قسم کی خدمت نہ کرو کیوں ؟ کیوں کہ میں خدا وند تمہارا خدا ہوں۔ میرے لوگ جو دوسرے خدا ؤں کی عبادت کر تے ہیں۔ میں ان سے نفرت کر تا ہوں۔ اگر کوئی آدمی میرے خلاف گناہ کر تا ہے تو میں اسکا دشمن ہو جاتا ہوں۔ میں اس آدمی کی اولادوں کی تیسری اور چوتھی نسل تک کو سزا دونگا۔ 
لیکن میں ان آدمیوں پر بہت مہر بان رہوں نگا جو مجھ سے محبت کریں گے اور میرے احکامات کو مانیں گے۔ میں انکے خاندانوں کے سا تھ اور انکی ہزاروں نسلوں تک مہربان رہوں گا۔
3. “تمہارے خدا وند خدا کے نام کا استعمال تمہیں غلط طریقے سے نہیں کر نا چاہئے۔ اگر کو ئی آدمی خدا وند کے نام کا استعمال غلط طریقے پر کر تا ہے تو وہ قصور وار ہے اور خدا وند اسے کبھی بے گناہ نہیں ما نے گا۔
4 “سبت کو ایک خاص دن کے طور پر منا نے کا خیال رکھنا۔  تم ہفتے میں چھ دن اپنا کام کرو۔  لیکن ساتویں د ن تمہارے خدا وند خدا کے آرام کا دن ہے۔ اس دن کو ئی بھی آدمی چاہیں۔ تم ، بیٹے اور بیٹیاں تمہارے غلام اور داشتائیں جانور اور تمہارے شہر میں رہنے والے سب غیر ملکی کام نہیں کریں گے۔  کیوں کہ خدا وند نے چھ دن کام کیا اور آسمان ، زمین ، سمندر اور ان کی ہر چیز بنائی اور ساتویں دن خدا نے آرام کیا۔ اس لئے خدا وند نے سبت کے دن برکت بخشی اور اسے بہت ہی خاص دن کے طور پر بنایا۔ [یہ پابندی صرف بنی اسرایئل کے لیے تھی  جسے قرآن  منسوخ  دیا ] 
5. “اپنے ماں باپ کی عزت کرو۔ یہ اس لئے کرو کہ تمہارے خدا وند خدا جس زمین کو تمہیں دے رہا ہے اس میں تم ساری زندگی گزار سکو۔
6. “تمہیں کسی آدمی کو قتل نہیں کر نا چاہئے۔
7.“تمہیں بد کاری کے گناہ نہیں کر نا چاہئے۔
8. “تمہیں چوری نہیں کرنی چاہئے۔
9. “تمہیں اپنے پڑوسیوں کے خلاف جھو ٹی گواہی نہیں دینی چاہئے۔
10. “دوسرے لوگوں کی چیزوں کو لینے کی خواہش نہیں کر نی چاہئے۔ تمہیں اپنے پڑوسی کا گھر ، اسکی بیوی ، اسکے خادم اور خادمائیں ، اسکی گائیں اسکے گدھوں کو لینے کی خواہش نہیں کر نی چاہئے۔ تمہیں کسی کی بھی چیز کو لینے کی خواہش نہیں کر نی چاہئے۔”
[تو رات (بائیبل ، عہد نامہ قدیم ، کتاب خروج باب 20)]

قرآن کے احکام : 

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قُلۡ تَعَالَوۡا اَتۡلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمۡ عَلَيۡكُمۡ‌ اَلَّا تُشۡرِكُوۡا بِهٖ شَيۡئًـــا وَّبِالۡوَالِدَيۡنِ اِحۡسَانًا‌ ۚ وَلَا تَقۡتُلُوۡۤا اَوۡلَادَكُمۡ مِّنۡ اِمۡلَاقٍ‌ؕ نَحۡنُ نَرۡزُقُكُمۡ وَاِيَّاهُمۡ‌ ۚ وَلَا تَقۡرَبُوا الۡفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنۡهَا وَمَا بَطَنَ‌ ۚ وَلَا تَقۡتُلُوا النَّفۡسَ الَّتِىۡ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالۡحَـقِّ‌ ؕ ذٰ لِكُمۡ وَصّٰٮكُمۡ بِهٖ لَعَلَّكُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ۞ 
( سورۃ نمبر 6 الأنعام آیت نمبر 151)
ترجمہ:
اے محمد ؐ ! ان سے کہو کہ آوٴ میں تمہیں سُناوٴں تمہارے رب نے تم پر کیا پابندیاں عائد کی ہیں:(1) یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو،(۲) اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو،(۳) اور اپنی اولاد کو مُفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دیں گے۔(۴) اور بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاوٴ خواہ وہ کُھلی ہوں یا چُھپی۔(۵) اور کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھیرایا ہے ہلاک نہ کرو مگر حق کے ساتھ۔یہ باتیں ہیں جن کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے، شاید کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو
یعنی تمہارے رب کے عائد کی ہوئی پابندیاں وہ نہیں ہیں جن میں تم گرفتار ہو، بلکہ اصل پابندیاں یہ ہیں جو اللہ نے انسانی زندگی کو منضبط کرنے کے لیے عائد کی ہیں اور جو ہمیشہ سے شرائع الٰہیہ کی اصل الاُصُول رہی ہیں۔ 

 شرک 
یعنی نہ خدا کی ذات میں کسی کو اس کا شریک ٹھہراؤ، نہ اس کی صفات میں، نہ اس کے اختیارات میں، اور نہ اس کے حقوق میں۔
ذات میں شرک :
یہ ہے کہ جو ہر اُلُوہیّت میں کسی کو حصہ دار قرار دیا جائے۔ مثلاً نصاریٰ کا عقیدہ تثلیث، مشرکین عرب کا فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دینا، اور دوسرے مشرکین کا اپنے دیوتاؤں اور دیویوں کو اور اپنے شاہی خاندانوں کو جنس آلہہ کے افراد قرار دینا۔ یہ سب شرک فی الذات ہیں۔
صفات میں شرک:
 یہ ہے کہ خدائی صفات جیسی کہ وہ خدا کے لیے ہیں، ویسا ہی ان کو یا ان میں سے کسی صفت کو کسی دوسرے کے لیے قرار دینا۔ مثلاً کسی کے متعلق یہ سمجھنا کہ اس پر غیب کی ساری حقیقتیں روشن ہیں، یا وہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے، یا وہ تمام نقائص اور تمام کمزوریوں سے منزَّہ اور بالکل بےخطا ہے۔
اختیارات میں شرک
 یہ ہے کہ خدا ہونے کی حیثیت سے جو اختیارات صرف اللہ کے لیے خاص ہیں ان کو یا ان میں سے کسی کو اللہ کے سوا کسی اور کے لیے تسلیم کیا جائے۔ مثلاً فوق الفطری طریقے سے نفع و ضرر پہنچانا، حاجت روائی و دستگیری کرنا، محافظت و نگہبانی کرنا، دعائیں سننا اور قسمتوں کو بنانا اور بگاڑنا۔ نیز حرام و حلال اور جائز و ناجائز کی حدود مقرر کرنا اور انسانی زندگی کے لیے قانون و شرع تجویز کرنا۔ یہ سب خداوندی کے مخصوص اختیارات ہیں جن میں سے کسی کو غیر اللہ کے لیے تسلیم کرنا شرک ہے۔
حقوق میں شرک
 یہ ہے کہ خدا ہونے کی حیثیت سے بندوں پر خدا کے جو مخصوص حقوق ہیں وہ یا ان میں سے کوئی حق خدا کے سوا کسی اور کے لیے مانا جائے۔ مثلاً رکوع و سجود، دست بستہ قیام، سلامی وآستانہ بوسی، شکر نعمت یا اعتراف برتری کے لیے نذر و نیاز اور قربانی، قضائے حاجات اور رفع مشکلات کے لیے مَنّت، مصائب و مشکلات میں مدد کے لیے پکارا جانا، اور ایسی ہی پرستش و تعظیم و تمجید کی دوسری تمام صورتیں اللہ کے مخصوص حقوق میں سے ہیں۔ اسی طرح ایسا محبوب ہونا کہ اس کی محبت پر دوسری سب محبتیں قربان کی جائیں، اور ایسا مستحق تقویٰ و خشیت ہونا کہ غیب و شہادت میں اس کی ناراضی اور اس کے حکم کی خلاف ورزی سے ڈرا جائے، یہ بھی صرف اللہ کا حق ہے۔ اور یہ بھی اللہ ہی کا حق ہے کہ اس کی غیر مشروط اطاعت کی جائے، اور اس کی ہدایت کو صحیح و غلط کا معیار مانا جائے، اور کسی ایسی اطاعت کا حلقہ اپنی گردن میں نہ ڈالا جائے جو اللہ کی اطاعت سے آزاد ایک مستقل اطاعت ہو اور جس کے حکم کے لیے اللہ کے حکم کی سند نہ ہو۔ ان حقوق میں سے جو حق بھی دوسرے کو دیا جائے گا وہ اللہ کا شریک ٹھہرے گا خواہ اس کو خدائی ناموں سے کوئی نام دیا جائے یا نہ دیا جائے۔
 نیک سلوک 
اس میں ادب، تعظیم، اطاعت، رضا جوئی، خدمت، سب داخل ہیں۔ والدین کے اس حق کو قرآن میں ہر جگہ توحید کے حکم کے بعد بیان فرمایا گیا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ خدا کے بعد بندوں کے حقوق میں سب سے مقدم حق انسان پر اس کے والدین کا ہے۔
 ”فواحش“
اصل میں لفظ ”فواحش“ استعمال ہوا ہے جس کا اطلاق ان تمام افعال پر ہوتا ہے جن کی برائی بالکل واضح ہے۔ قرآن میں زنا، عمل قوم لوط، برہنگی، جھوٹی تہمت، اور باپ کی منکوحہ سے نکاح کرنے کو فحش افعال میں شمار کیا گیا ہے۔ حدیث میں چوری اور شراب نوشی اور بھیک مانگنے کو من جملہ فواحش کہا گیا ہے۔ اسی طرح دوسرے تمام شرمناک افعال بھی فواحش میں داخل ہیں اور ارشاد الہٰی یہ ہے کہ اس قسم کے افعال نہ علانیہ کیے جائیں نہ چھپ کر۔
 انسانی جان کی حرمت  تقدس 
یعنی انسانی جان، جو فی الاصل خدا کی طرف سے حرام ٹھہرائی گئی ہے، ہلاک نہ کی جائے گی مگر حق کے ساتھ۔ اب رہا یہ سوال کہ ”حق کے ساتھ“ کا کیا مفہوم ہے، تو اس کی تین صورتیں قرآن میں بیان کی گئی ہیں، اور دو صورتیں اس پر زائد، نبی ﷺ نے بیان فرمائی ہیں۔ قرآن کی بیان کردہ صورتیں یہ ہیں 
(1) انسان کسی دوسرے انسان کے قتل عمد کا مجرم ہو اور اس پر قصاص کا حق قائم ہوگیا ہو۔ 
(2) دین حق کے قیام کی راہ میں مزاحم ہو اور اس سے جنگ کیے بغیر چارہ نہ رہا ہو۔ 
(3) دار الاسلام کے حدود میں بدامنی پھیلائے یا اسلامی نظام حکومت کو الٹنے کی سعی کرے۔
باقی دو صورتیں جو حدیث میں ارشاد ہوئی ہیں، یہ ہیں 
(4) شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کرے۔ 
(5) ارتداد اور خروج از جماعت کا مرتکب ہو۔ 
ان پانچ صورتوں کے سوا کسی صورت میں انسان کا قتل انسان کے لیے حلال نہیں ہے، خواہ وہ مومن ہو یا ذمی یا عام کافر۔

وَاَنَّ هٰذَا صِرَاطِىۡ مُسۡتَقِيۡمًا فَاتَّبِعُوۡهُ‌ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوۡا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمۡ عَنۡ سَبِيۡلِهٖ‌ ؕ ذٰ لِكُمۡ وَصّٰٮكُمۡ بِهٖ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُوۡنَ ۞ 
( سورۃ نمبر 6 الأنعام، آیت نمبر 153)
ترجمہ:
(1۰) نیز اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے لہٰذا تم اِسی پر چلو اور دُوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اُس کے راستے سے ہٹاکر تمہیں پراگندہ کردیں گے۔ یہ ہے وہ ہدایت جو تمہارے رب نے تمہیں کی ہے، شاید کہ تم کَج روی سے بچو۔

اوپر جس فطری عہد کا ذکر ہوا، یہ اس عہد کا لازمی اقتضا ہے کہ انسان اپنے رب کے بتائے ہوئے راستہ پر چلے، کیونکہ اس کے امر کی پیروی سے منہ موڑنا اور خود سری و خود مختاری یا بندگی غیر کی جانب قدم بڑھانا انسان کی طرف سے اس عہد کی اولین خلاف ورزی ہے جس کے بعد ہر قدم پر اس کی دفعات ٹوٹتی چلی جاتی ہیں۔ علاوہ بریں اس نہایت نازک، نہایت وسیع اور نہایت پیچیدہ عہد کی ذمہ داریوں سے انسان ہرگز عہدہ برآ نہیں ہوسکتا جب تک وہ خدا کی رہنمائی کو قبول کر کے اس کے بتائے ہوئے راستہ پر زندگی بسر نہ کرے۔ اس کو قبول نہ کرنے کے دو زبردست نقصان ہیں۔ ایک یہ کہ ہر دوسرے راستہ کی پیروی لازماً انسان کو اس راہ سے ہٹا دیتی ہے جو خدا کے قرب اور اس کی رضا تک پہنچنے کی ایک ہی راہ ہے۔ دوسرے یہ کہ اس راہ سے ہٹتے ہی بیشمار پگڈنڈیاں سامنے آجاتی ہیں جن میں بھٹک کر پوری نوع انسانی پراگندہ ہوجاتی ہے اور اس پراگندگی کے ساتھ ہی اس کے بلوغ و ارتقاء کا خواب بھی پریشان ہو کر رہ جاتا ہے۔ انہی دونوں نقصانات کو اس فقرے میں بیان کیا گیا ہے کہ ”دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ تمہیں اس کے راستہ سے ہٹا کر پراگندہ کردیں گے“۔ (ملاحظہ ہو سورة مائدہ، 35)۔
ثُمَّ اٰتَيۡنَا مُوۡسَى الۡـكِتٰبَ تَمَامًا عَلَى الَّذِىۡۤ اَحۡسَنَ وَتَفۡصِيۡلاً لِّـكُلِّ شَىۡءٍ وَّهُدًى وَرَحۡمَةً لَّعَلَّهُمۡ بِلِقَآءِ رَبِّهِمۡ يُؤۡمِنُوۡنَ ۞ 
( سورۃ نمبر 6 الأنعام، آیت نمبر 154)
ترجمہ:
پھر ہم نے موسیٰ ؑ کو کتاب عطا کی تھی جو بھلائی کی روش اختیار کرنے والے انسان پر نعمت کی تکمیل اور ہر ضروری چیز کی تفصیل اور سراسر ہدایت و رحمت تھی (اور اس لیے بھی اسرائیل کو دی گئی تھی کہ) شاید لوگ اپنے رب کی ملاقات پر ایمان لائیں۔
رب کی ملاقات پر ایمان لانے سے مراد اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جواب دہ سمجھنا اور ذمہ دارانہ زندگی بسر کرنا ہے۔ یہاں اس ارشاد کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ خود بنی اسرسائیل میں اس کتاب کی حکیمانہ تعلیمات سے ذمہ داری کا احساس بیدار ہوجائے۔ دوسرے یہ کہ عام لوگ اس اعلیٰ درجہ کے نظام زندگی کا مطالعہ کر کے اور نیکو کار انسانوں میں اس نعمت ہدایت اور اس رحمت کے اثرات دیکھ کر یہ محسوس کرلیں کہ انکار آخرت کی غیر ذمہ دارانہ زندگی کے مقابلہ میں وہ زندگی ہر اعتبار سے بہتر ہے جو اقرار آخرت کی بنیاد پر ذمہ دارانہ طریقہ سے بسر کی جاتی ہے، اور اس طرح یہ مشاہدہ و مطالعہ انہیں انکار سے ایمان کی طرف کھینچ لائے۔
وَهٰذَا كِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوۡهُ وَاتَّقُوۡا لَعَلَّكُمۡ تُرۡحَمُوۡنَۙ ۞ (سورۃ نمبر 6 الأنعام، آیت نمبر 155)
ترجمہ:
اور اسی طرح یہ کتاب ہم نے نازل کی ہے، ایک برکت والی کتاب پس تم اِس کی پیروی کرو اور تقویٰ کی روش اختیار کرو، بعید نہیں کہ تم پر رحم کیا جائے
🌹🌹🌹
🔰 Quran Subjects  🔰 قرآن مضامین 🔰

"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]

کیا یہ لوگ قرآن پر تدبر ّنہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل پڑچکے ہیں[47:24]

قرآن کے پیغام کوپھیلانا "جہاد کبیرہ" ہے(25:52)
~~~~~~~~~
اسلام دین کامل کو واپسی ....
"اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان طریقوں  کو واضح کرے اور انہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحاء کرتے تھے- وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجّہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے ، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی- ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ. اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے." (قرآن  4:26,27,28]
اسلام کی پہلی صدی، دین کامل کا عروج کا زمانہ تھا ، خلفاء راشدین اور اصحابہ اکرام، الله کی رسی قرآن کو مضبوطی سے پکڑ کر اس پر کاربند تھے ... پہلی صدی حجرہ کے بعد جب صحابہ اکرام بھی دنیا سے چلے گیے تو ایک دوسرے دور کا آغاز ہوا ... الله کی رسی قرآن کو بتدریج پس پشت ڈال کر تلاوت تک محدود کر دیا ...اور مشرکوں کی طرح فرقہ واریت اختیار کرکہ دین کامل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے-  ہمارے مسائل کا حل پہلی صدی کے اسلام دین کامل کو واپسی میں ہے  .. مگر کیسے >>>>>>

Popular Books