Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

حلال و حرام - قرآن کا نظریہ


قُلْ، مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ.(الاعراف ۷:۳۲)
’’اِن سے کہو، اللہ کی اُس زینت کو کس نے حرام کر دیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کیا ہے اور کھانے کی پاک چیزیں کس نے ممنوع ٹھیرا دی ہیں۔‘‘
زینت کا لفظ عربی زبان میں اُن چیزوں کے لیے آتا ہے جن سے انسان اپنی حس جمالیات کی تسکین کے لیے کسی چیز کو سجاتا بناتا ہے۔ چنانچہ لباس، زیورات وغیرہ بدن کی زینت ہیں؛ پردے، صوفے، قالین، غالیچے، تماثیل، تصویریں اور دوسرا فرنیچر گھروں کی زینت ہے؛ باغات، عمارتیں اور اِس نوعیت کی دوسری چیزیں شہروں کی زینت ہیں، موسیقی آواز کی زینت ہے یا نہیں ، اس پر سخت اختلاف ہے، شاعری کلام کی زینت ہے۔ دین کی صوفیانہ تعبیر اور صوفیانہ مذاہب تو اِن سب چیزوں کو مایا کا جال سمجھتے اور بالعموم حرام یا مکروہ یا قابل ترک اور ارتقاے روحانی میں سد راہ قرار دیتے ہیں، مگر قرآن کا نقطۂ نظر یہ نہیں ہے۔ وہ اِن مذاہب کی تردید کرتا اور پوری صراحت کے ساتھ کہتا ہے کہ یہ سب چیزیں جائز ہیں، بلکہ نہایت سخت تنبیہ اور تہدید کے انداز میں پوچھتا ہے کہ کون ہے جو زینت کی اِن چیزوں کو حرام قرار دینے کی جسارت کرتا ہے جو خدا نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی ہیں-
پھر قرآن اعلان کرتا ہے کہ رزق کے طیبات اور زینت کی یہ سب چیزیں تو اِس دنیا میں پیدا ہی اہل ایمان کے لیے کی گئی ہیں، لہٰذا اصلاً اُنھی کا حق ہیں، خدا کے منکروں کو تو یہ اُن کی طفیل اور اُس مہلت کی وجہ سے ملتی ہیں جو دنیا کی آزمایش کے لیے اُنھیں دی گئی ہے۔ چنانچہ آخرت میں یہ تمام تر اہل ایمان کے لیے خاص ہوں گی، منکروں کے لیے اِن میں کوئی حصہ نہیں ہوگا، وہ اِن سے ہمیشہ کے لیے محروم کر دیے جائیں گے:

قُلْ، ھِیَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا خَالِصَۃً یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ، کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ.(الاعراف۷: ۳۲)
’’یہ دنیا کی زندگی میں بھی ایمان والوں کے لیے ہیں اور قیامت کے دن تو خالصتاً اُنھی کے لیے ہوں گی۔ ہم اُن لوگوں کے لیے جو جاننا چاہیں اپنی آیتوں کی اِسی طرح تفصیل کرتے ہیں۔‘‘

قرآن کا یہ اعلان ایک حیرت انگیز اعلان ہے۔:
عام مذہبی تصورات اور صوفیانہ مذاہب کی تعلیمات کے برخلاف قرآن دینی زندگی کا ایک بالکل ہی دوسرا تصور پیش کرتا ہے۔ تقرب الٰہی اور وصول الی اللہ کے لیے دنیا کی زینتوں سے دست برداری کی تلقین کے بجاے وہ ایمان والوں کو ترغیب دیتا ہے کہ اسراف و تبذیر سے بچ کر اور حدود الٰہی کے اندر وہ زینت کی سب چیزیں بغیر کسی تردد کے استعمال کریں اور خدا کی اِن نعمتوں پر اُس کا شکر بجا لائیں:

یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ، خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ، وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا، اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ.(الاعراف ۷:۳۱)
’’آدم کے بیٹو، ہر مسجد کی حاضری کے وقت اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھاؤ پیو، مگر اسراف نہ کرو، اِس لیے کہ اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

اِس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا کی شریعت میں حرام پھر کیا چیزیں ہیں؟
اِس سوال کا جواب قرآن نے سورۂ اعراف میں آگے اِسی مقام پر یہ دیا ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ اللہ نےپانچ چیزیں حرام قرار دی ہیں:
  1.  فواحش،
  2. حق تلفی،
  3.  ناحق زیادتی، 
  4. شرک 
  5.  بدعت،اللہ پر افترا کر کے کوئی ایسی بات کہو جسے تم نہیں جانتے۔
اللہ کی شریعت میں یہی چند چیزیں اور جو قرآن و سنت میں حرام قرار دی گیئں ہیں۔ اِن کے علاوہ کوئی چیز حرام نہیں ہے۔ 
حلال و حرام کے معاملے میں اللہ  کا اعلان ہے، لہٰذا کسی کو بھی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اِن کے علاوہ کسی چیز کو حرام ٹھیرائے۔ چنانچہ اب اگر کوئی چیز حرام ہو گی تو اُسی وقت ہو گی، جب اِن میں سے کوئی چیز اُس میں پائی جائے گی۔ روایتیں، آثار، حدیثیں اور پچھلے صحیفوں کے بیانات، سب قرآن کے اِسی ارشاد کی روشنی میں سمجھے جائیں گے۔ اِس سے ہٹ کر یااِس کے خلاف کوئی چیز بھی قابل قبول نہ ہو گی۔ فرمایا ہے:

قُلْ، اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ، وَالْاِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ، وَاَنْ تُشْرِکُوْا بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا، وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَالَا تَعْلَمُوْنَ.(الاعراف ۷:۳۳) 
’’اِن سے کہہ دو کہ میرے رب نے تو صرف فواحش کو حرام کیا ہے خواہ کھلے ہوں یا چھپے اور حق تلفی اور ناحق زیادتی کو حرام کیا ہے اور اِس کو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیراؤ جس کے لیے اُس نے کوئی سند نازل نہیں کی ہے اور اِس کو کہ تم اللہ پر افترا کر کے کوئی ایسی بات کہو جسے تم نہیں جانتے۔‘‘

موسیقی اور گانا حرام نہیں ہے، سابق امام کعبہ

سابق امام کعبہ شیخ عادل الکلبانی کا کہنا ہے کہ موسیقی کے آلات اور گانا حرام نہیں ہے۔ انہوں نے ایک سعودی ٹی وی چینل پر اپنے انٹرویو میں پیغمبرِ اسلام کی احادیث کی اسلامی قوانین کی بنیاد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

شیخ عادل الکلبانی، جو اب ریاض کی ایک مسجد کے امام کے بہ طور کام کر رہے ہیں، نے ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پیغمبر کی اہلیہ عائشہ نے دیگر دو ہمسایہ خواتین کے ہم راہ گیت گایا تھا۔

متعدد مسلم مذہبی رہنما گانے اور موسیقی کو ناجائز اور حرام قرار دیتے آئے ہیں، تاہم کئی مسلم اسکالر اس پر متضاد رائے رکھتے ہیں۔ شیخ عادل الکلبانی نے اپنے انٹرویو میں ایک اور حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک بار پیغمبرِ اسلام ایک شادی میں شرکت کے لیے گئے، تو وہاں ایک خاتون دف بجا رہی تھیں اور گیت گا رہی تھیں۔ یہ بات اہم ہے کہ سعودی عرب میں قدامت پسند مسلم رہنما موسیقی کو حرام گردانتے ہیں۔

اس سے قبل شیخ الکلبانی نے سن 2010 میں ایک فتویٰ بھی جاری کیا تھا، جس میں موسیقی کی اجازت دی گئی تھی، تاہم بعد میں وہ اس سے پیچھے ہٹ گئے تھے۔

اس سے قبل بھی اپنے ایک اخباری انٹرویو میں شیخ الکلبانی نے کہا، ''کچھ لوگ سعودی عرب میں تمام انسانوں کو ایک جیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔ میرا نکتہ ہائے نگاہ مختلف ہے۔ میری خیال میں آپ اُس سے بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، جو کسی نکتہء نظر میں مختلف ہے اور جو آپ پر تنقید کرتا ہے۔‘‘

سعودی شاہ عبداللہ نے شیخ الکلبانی کو امام کعبہ مقرر کیا تھا۔ اس تقرری پر بہت سے مبصرین کا خیال تھا کہ وہ سعودی عرب کے قدامت پسند معاشرے میں آزادیء فکر کی راہ نکالنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

کینیڈا میں مقیم مسلم مبلغ اور اسلامک انفارمیشن اینڈ دعویٰ مرکز کے صدر ڈاکٹر شبیر علی کے مطابق، ''قرآن میں موسیقی یا گانے کے حرام ہونے سے متعلق کوئی حکم موجود نہیں ہے جب کہ کسی مصدقہ حدیث میں بھی ایسے کسی حکم کی روایت نہیں ملتی۔‘‘موسیقی سے متعلق قرآن میں کوئی واضح حکم نہیں

انہوں نے کہا کہ ماضی میں بعض روایتوں کی وجہ سے مسلم دنیا میں موسیقی کو حرام سمجھا جاتا رہا اور تب کے معاشرے میں موسیقی سے اجتناب میں آسانی کی بنا پر اس پر عمل بھی ہوتا رہا، تاہم قرآن یا حدیث اس معاملے میں کسی بھی واضح حکم کے حامل نہیں ہیں۔

پاکستان سے تعلق رکھنے والے مسلم دانشور جاوید غامدی کا بھی موقف ہے کہ موسیقی کی حرمت کے حوالے سے قرآن میں کوئی سند نہیں ملتی۔ اپنے ایک بیان میں غامدی نے کہا کہ قرآن میں ان تمام اقدامات یا چیزوں کا ذکر واضح انداز سے موجود ہے، جن کو حرام قرار دیا گیا ہے، تاہم اس سلسلے میں موسیقی کا کہیں کوئی ذکر نہیں۔

دوسری جانب قدامت پسند مسلم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ گو کہ قرآن میں موسیقی کے حرام ہونے سے متعلق کوئی واضح یا دو ٹوک حکم تو موجود نہیں، تاہم بعض روایتیں یہ بتاتی ہیں کہ موسیقی سے دور رہنے کا کہا گیا ہے۔ اس حوالے سے کچھ مسلم علماء کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ پیمبر اسلام کے دور میں استعمال ہونے والے آلات موسیقی تو جائز ہیں، تاہم جدید دور کے آلات بجانا حرام ہے۔

https://www.dw.com/ur/a-51500153

مزید ... حلال و حرام >>>>>>

~~~~~~~~~
🌹🌹🌹
🔰 Quran Subjects  🔰 قرآن مضامین 🔰
"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]
The messenger said, "My Lord, my people have deserted this Quran." (Quran 25:30)
~~~~~~~~~
اسلام دین کامل کو واپسی ....
"اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان طریقوں  کو واضح کرے اور انہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحاء کرتے تھے- وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجّہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے ، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی- ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ. اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے." (قرآن  4:26,27,28]
اسلام کی پہلی صدی، دین کامل کا عروج کا زمانہ تھا ، خلفاء راشدین اور اصحابہ اکرام، الله کی رسی قرآن کو مضبوطی سے پکڑ کر اس پر کاربند تھے ... پہلی صدی حجرہ کے بعد جب صحابہ اکرام بھی دنیا سے چلے گیے تو ایک دوسرے دور کا آغاز ہوا ... الله کی رسی قرآن کو بتدریج پس پشت ڈال کر تلاوت تک محدود کر دیا ...اور مشرکوں کی طرح فرقہ واریت اختیار کرکہ دین کامل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے-  ہمارے مسائل کا حل پہلی صدی کے اسلام دین کامل کو واپسی میں ہے  .. مگر کیسے >>>>>>

Popular Books