مشرکین کی ایک بہت بڑی غلط فہمی کا رد ہے جو بالعموم ان سب میں پائی جاتی ہے اور ان اہم اسباب میں سے ایک ہے جنہوں نے ہر زمانہ میں انسان کو شرک میں مبتلا کیا ہے۔\
... وَاسۡتَعۡمَرَكُمۡ فِيۡهَا فَاسۡتَغۡفِرُوۡهُ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَيۡهِ ؕ اِنَّ رَبِّىۡ قَرِيۡبٌ مُّجِيۡبٌ ۞ ( القرآن - سورۃ نمبر 11 هود ، آیت نمبر 61
تم اُس سے معافی چاہو اور اُس کی طرف پلٹ آوٴ، یقیناً میرا ربّ قریب ہے اور وہ دعاؤں کا جواب دینے والا ہے۔“
یہ لوگ اللہ کو اپنے راجوں مہاراجوں اور بادشاہوں پر قیاس کرتے ہیں جو رعیت سے دور اپنے محلوں میں داد عیش دیا کرتے ہیں، جن کے دربار تک عام رعایا میں سے کسی کی رسائی نہیں ہو سکتی، جن کے حضور میں کوئی درخواست پہچانی ہو تو مقربین بارگاہ میں سے کسی کا دامن تھامنا پڑتا ہے اور پھر اگر خوش قسمتی سے کسی کی درخواست ان کے آستانہ بلند پر پہنچ بھی جاتی ہے تو ان کا پندار خدائی یہ گوارا نہیں کرتا کہ خود اس کو جواب دیں، بلکہ جواب دینے کا کام مقربین ہی میں سے کسی کے سپرد کیا جاتا ہے۔
اس غلط گمان کی وجہ سے یہ لوگ ایسا سمجھتے ہیں اور ہوشیار لوگوں نے ان کو ایسا سمجھانے کی کوشش بھی کی ہے کہ خداوند عالم کا آستانہ قدس عام انسانوں کی دست رس سے بہت ہی دور ہے۔
اس کے دربار تک بھلا کسی عام کی پہنچ کیسے ہو سکتی ہے۔ وہاں تک دعاؤں کا پہنچنا اور پھر ان کا جواب ملنا تو کسی طرح ممکن ہی نہیں ہوسکتا جب تک کہ پاک روحوں کا وسیلہ نہ ڈھونڈا جائے اور *ان مذہبی منصب داروں کی خدمات نہ حاصل کی جائیں جو اوپر تک نذریں، نیازیں اور عرضیاں پہنچانے کے ڈھب جانتے ہیں۔ یہی وہ غلط فہمی ہے جس نے بندے اور خدا کے درمیان بہت سے چھوٹے بڑے معبودوں اور سفارشیوں کا جم غفیر کھڑا کردیا ہے اور اس کے ساتھ مہنت گری (Priesthood) کا وہ نظام پیدا کیا ہے جس کے توسط کے بغیر جاہلی مذاہب کے پیرو پیدائش سے لے کر موت تک اپنی کوئی مذہبی رسم بھی انجام نہیں دے سکتے تھے۔*
حضرت صالح ؑ جاہلیت کے اس پورے طلسم کو صرف دو لفظوں سے توڑ پھینکتے ہیں۔
ایک یہ کہ *اللہ قریب* ہے۔
دوسرے یہ ہے کہ وہ *مجیب* ہے۔
یعنی تمہارا یہ خیال بھی غلط ہے کہ وہ تم سے دور ہے، اور یہ بھی غلط ہے کہ تم براہ رست اس کو پکار کر اپنی دعاؤں کا جواب حاصل نہیں کرسکتے۔
وہ اگرچہ بہت بالا و برتر ہے مگر اسکے باوجود وہ تم سے بہت قریب ہے۔ تم میں سے ایک ایک شخص اپنے پاس ہی اس کو پاسکتا ہے، اس سے سرگوشی کرسکتا ہے، خلوت اور جلوت دونوں میں علانیہ بھی اور بصیغہ راز بھی اپنی عرضیاں خود اس کے حضور پیش کرسکتا ہے۔ اور پھر وہ براہ راست اپنے ہر بندے کی دعاؤں کا جواب خود دیتا ہے۔ پس جب سلطان کائنات کا دربار عام ہر وقت ہر شخص کے لیے کھلا ہے اور ہر شخص کے قریب ہی موجود ہے تو یہ تم کس حماقت میں پڑے ہو کہ اس کے لیے واسطے اور وسیلے ڈھونڈتے پھرتے ہو۔
وَاِذَا سَاَلَـكَ عِبَادِىۡ عَنِّىۡ فَاِنِّىۡ قَرِيۡبٌؕ اُجِيۡبُ دَعۡوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلۡيَسۡتَجِيۡبُوۡا لِىۡ وَلۡيُؤۡمِنُوۡا بِىۡ لَعَلَّهُمۡ يَرۡشُدُوۡنَ ۞ (القرآن - سورۃ نمبر 2 البقرة, آیت نمبر 186)
ترجمہ
*اور اے نبیؐ ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو اُ نھیں بتا دو کہ میں اُن سے قریب ہی ہوں۔پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے ، میں اُس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انھیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں یہ بات تم اُنھیں سُنادو شاید کہ وہ راہِ راست پالیں۔*
یعنی اگرچہ تم مجھے دیکھ نہیں سکتے اور نہ اپنے حواس سے مجھ کو محسوس کرسکتے ہو، لیکن یہ خیال نہ کرو کہ میں تم سے دور ہوں۔ نہیں، میں اپنے ہر بندے سے اتنا قریب ہوں کہ جب وہ چاہے، مجھ سے عرض معروض کرسکتا ہے، جتّٰی کہ دل ہی دل میں وہ جو کچھ مجھ سے گزارش کرتا ہے میں اسے بھی سن لیتا ہوں اور صرف سنتا ہی نہیں، فیصلہ بھی صادر کرتا ہوں۔ جن بےحقیقت اور بےاختیار ہستیوں کو تم نے اپنی نادانی سے الٰہ اور رب قرار دے رکھا ہے، ان کے پاس تو تمہیں دوڑ دوڑ کر جانا پڑتا ہے اور پھر بھی نہ وہ تمہاری شنوائی کرسکتے ہیں اور نہ ان میں یہ طاقت ہے کہ تمہاری درخواستوں پر کوئی فیصلہ صادر کرسکیں۔ مگر میں کائنات بےپایاں کا فرماں رواے مطلق، تمام اختیارات اور تمام طاقتوں کا مالک، تم سے اتنا قریب ہوں کہ تم خود بغیر کسی واسطے اور وسیلے اور سفارش کے براہ راست ہر وقت اور ہر جگہ مجھ تک اپنی عرضیاں پہنچا سکتے ہو۔ لہٰذا تم اپنی اس نادانی کو چھوڑ دو کہ ایک ایک بےاختیار بناوٹی خدا کے در پر مارے مارے پھرتے ہو۔ میں جو دعوت تمہیں دے رہا ہوں، اس پر لبیک کہہ کر میرا دامن پکڑ لو، میری طرف رجوع کرو، مجھ پر بھروسہ کرو اور میری بندگی و اطاعت میں آجاؤ۔ (تفہیم القرآن)
1. https://QuranSubjects.blogspot.com
2. https://youtu.be/MtuF2N2Utz4
🌹🌹🌹
*"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25 آیت: 30]*
*کیا یہ لوگ قرآن پر تدبر ّنہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل پڑچکے ہیں[47:24]*
*قرآن کے پیغام کوپھیلانا "جہاد کبیرہ" ہے(25:52)*
#Quran #Islam #Muslims #Hadith #Bidah #بدعة