اب اس عہد و پیمان کے بعد بھی تم میں سے جو انکاری ہو جائے وہ یقیناً راہ راست (سَوَآءَ السَّبِیۡلِ) سے بھٹک گیا ۔
وَ لَقَدۡ اَخَذَ اللّٰہُ مِیۡثَاقَ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ۚ وَ بَعَثۡنَا مِنۡہُمُ اثۡنَیۡ عَشَرَ نَقِیۡبًا ؕ وَ قَالَ اللّٰہُ اِنِّیۡ مَعَکُمۡ ؕ لَئِنۡ اَقَمۡتُمُ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَیۡتُمُ الزَّکٰوۃَ وَ اٰمَنۡتُمۡ بِرُسُلِیۡ وَ عَزَّرۡتُمُوۡہُمۡ وَ اَقۡرَضۡتُمُ اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا لَّاُکَفِّرَنَّ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ لَاُدۡخِلَنَّکُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۚ فَمَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ فَقَدۡ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیۡلِ ﴿سورة المائدة 5:12﴾
And Allah had already taken a covenant from the Children of Israel, and We delegated from among them twelve leaders. And Allah said, "I am with you. If you establish prayer and give zakah and believe in My messengers and support them and loan Allah a goodly loan, I will surely remove from you your misdeeds and admit you to gardens beneath which rivers flow. But whoever of you disbelieves after that has certainly strayed from the soundness of the way."(5:!2)
اور اللہ تعالٰی نے بنی اسرائیل سے عہد و پیماں لیا اور انہی میں سے بارہ سردار ہم نےمقرر فرمائے اور اللہ تعالٰی نے فرمادیا کہ یقیناً میں تمہارے ساتھ ہوں ، اگر تم نماز قائم رکھو گے اور زکوۃ دیتے رہو گے اور میرے رسولوں کو مانتے رہو گے اور ان کی مدد کرتے رہو گے اور اللہ تعالٰی کو بہتر قرض دیتے رہو گے تو یقیناً میں تمہاری برائیاں تم سے دور رکھوں گا اور تمہیں ان جنتوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے چشمے بہہ رہے ہیں ، اب اس عہد و پیمان کے بعد بھی تم میں سے جو انکاری ہو جائے وہ یقیناً راہ راست (سَوَآءَ السَّبِیۡلِ) سے بھٹک گیا ۔ ﴿سورة المائدة 5:12﴾
سَوَآءَ السَّبِیۡلِ - توسط و اعتدال کی شاہراہ- صراط مستقیم
یعنی اس نے”سَوَاء السّبیل“ کو پا کر پھر کھو دیا اور وہ تباہی کے راستوں میں بھٹک نکلا ۔ ”سَوَاء السّبیل“ کا ترجمہ ”توسط و اعتدال کی شاہراہ“ کیا جا سکتا ہے مگر اس سے پورا مفہوم ادا نہیں ہوتا ۔ اسی لیے ہم نے ترجمہ میں اصل لفظ ہی کو جوں کا توں لے لیا ہے ۔ اس لفظ کی معنویت کو سمجھنے کے لیے پہلے یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ انسان بجائے خود اپنی ذات میں ایک عالم اصغر ہے جس کے اندر بے شمار مختلف قوتیں اور قابلیتیں ہیں ، خواہشیں ہیں ، جذبات اور رحجانات ہیں ، نفس اور جسم کے مختلف مطالبے ہیں ، روح اور طبیعت کے مختلف تقاضے ہیں ۔
پھر ان افراد کے ملنے سے جو اجتماعی زندگی بنتی ہے وہ بھی بے حد و حساب پیچیدہ تعلقات سے مرکب ہوتی ہے اور تمدن و تہذیب کے نشو و نما کے ساتھ ساتھ اس کی پیچیدگیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں ۔ پھر دنیا میں جو سامان زندگی انسان کے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے اس سے کام لینے اور اس کو انسانی تمدن میں استعمال کرنے کا سوال بھی انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے بکثرت شاخ در شاخ مسائل پیدا کرتا ہے ۔
انسان اپنی کمزوری کی وجہ سے اس پورے عرصہ حیات پر بیک وقت ایک متوازن نظر نہیں ڈال سکتا ۔ اس بنا پر انسان اپنے لیے خود زندگی کا کوئی ایسا راستہ بھی نہیں بنا سکتا جس میں اس کی ساری قوتوں کے ساتھ انصاف ہو ، اس کی تمام خواہشوں کا ٹھیک ٹھیک حق ادا ہو جائے ، اس کے سارے جذبات و رحجانات میں توازن قائم رہے ، اس کے سب اندرونی و بیرونی تقاضے تناسب کے ساتھ پورے ہوں ، اس کی اجتماعی زندگی کے تمام مسائل کی مناسب رعایت ملحوظ ہو اور ان سب کا ایک ہموار اور متناسب حل نکل آئے ، اور مادی اشیاء کو بھی شخصی اور تمدنی زندگی میں عدل ، انصاف اور حق شناسی کے ساتھ استعمال کیا جا تا رہے ۔
جب انسان خود اپنا رہنما اور اپنا شارع بنتا ہے تو حقیقت کے مختلف پہلوؤں میں سے کوئی ایک پہلو ، زندگی کی ضرورتوں میں سے کوئی ایک ضرورت ، حل طلب مسئلوں میں سے کوئی ایک مسئلہ اس کے دماغ پر اس طرح مسلط ہو جاتا ہے کہ دوسرے پہلوؤں اور ضرورتوں اور مسئلوں کے ساتھ وہ بالارادہ یا بلا ارادہ بے انصافی کرنے لگتا ہے ۔ اور اس کی اس رائے کے زبردستی نافذ کیے جانے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زندگی کا توازن بگڑ جاتا ہے اور وہ بے اعتدالی کی کسی ایک انتہا کی طرف ٹیڑھی چلنے لگتی ہے ۔
پھر جب یہ ٹیڑھی چال اپنے آخری حدود پر پہنچتے پہنچتے انسان کے لیے ناقابل برداشت ہو جاتی ہے تو وہ پہلو اور وہ ضروریات اور وہ مسائل جن کے ساتھ بے انصافی ہوئی تھی ، بغاوت شروع کر دیتے ہیں اور زور لگانا شروع کر تے ہیں کہ ان کے ساتھ انصاف ہو ۔ مگر انصاف پھر بھی نہیں ہو تا ۔ کیونکہ پھر وہی عمل رونما ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک ، جو سابق بے اعتدالی کی بدولت سب سے زیادہ دبا دیا گیا تھا ، انسانی دماغ پر حاوی ہو جاتا ہے اور اسے اپنے مخصوص مقتضاء کے مطابق ایک خاص رخ پر بہا لے جاتا ہے جس میں پھر دوسرے پہلوؤں اور ضرورتوں اور مسئلوں کے ساتھ بے انصافی ہونے لگتی ہے ۔
اس طرح زندگی کو کبھی سیدھا چلنا نصیب نہیں ہوتا ۔ ہمیشہ وہ ہچکولے ہی کھاتی رہتی ہے اور تباہی کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے کی طرف ڈھلکتی چلی جاتی ہے ۔ تمام وہ راستے جو خود انسان نے اپنی زندگی کے لیے بنائے ہیں ، خط منحنی کی شکل میں واقع ہیں ، غلط سمت سے چلتے ہیں اور غلط سمت پر ختم ہو کر پھر کسی دوسری غلط سمت کی طرف مڑ جاتے ہیں ۔
ان بہت سے ٹیڑھے اور غلط راستوں کے درمیان ایک ایسی راہ جو بالکل وسط میں واقع ہو ، جس میں انسان کی تمام قوتوں اور خواہشوں کے ساتھ ، اس کے تمام جذبات و رحجانات کے ساتھ ، اور اس کی روح اور جسم کے تمام مطالبوں اور تقاضوں کے ساتھ ، اور اس کی زندگی کے تمام مسائل کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا گیا ہو ، جس کے اندر کوئی ٹیڑھ ، کوئی کجی ، کسی پہلو کی بے جا رعایت اور کسی دوسرے پہلو کے ساتھ ظلم اور بے انصافی نہ ہو ، انسانی زندگی کے صحیح ارتقاء اور اس کی کامیابی و بامرادی کے لیے سخت ضرورت ہے ۔ انسان کی عین فطرت اس راہ کی طالب ہے ، اور مختلف ٹیڑھے راستوں سے بار بار اس کے بغاوت کرنے کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہ اس سیدھی شاہراہ کو ڈھونڈتی ہے ۔ مگر انسان خود اس شاہراہ کو معلوم کرنے پر قادر نہیں ہے ۔
اس کی طرف صرف خدا ہ راہنمائی کر سکتا ہے اور خدا نے اپنے رسول اسی لیے بھیجے ہیں کہ اس راہ راست کی طرف انسان کی راہنمائی کریں ۔ قرآن اسی راہ کو سَوَاء السّبیل اور صراط مستقیم کہتا ہے ۔
آپ ہماری رہنمائی فرمائیں اور ہمیں بتائیں کہ قیاسی فلسفوں کی اس بھول بھلیاں میں حقیقتِ نفس الامری کیا ہے ، اخلاق کے ان مختلف نظریات میں صحیح نظام اخلاق کونسا ہے ، زندگی کی ان بے شمار پگڈنڈیوں کے درمیان فکر و عمل کی سیدھی اور صاف شاہراہ کونسی ہے؟
آپ ہماری رہنمائی فرمائیں اور ہمیں بتائیں کہ قیاسی فلسفوں کی اس بھول بھلیاں میں حقیقتِ نفس الامری کیا ہے ، اخلاق کے ان مختلف نظریات میں صحیح نظام اخلاق کونسا ہے ، زندگی کی ان بے شمار پگڈنڈیوں کے درمیان فکر و عمل کی سیدھی اور صاف شاہراہ کونسی ہے؟
یہ شاہراہ دنیا کی اس زندگی سے لے کر آخرت کی دوسری زندگی تک بے شمار ٹیڑھے راستوں کے درمیان سے سیدھی گزرتی چلی جاتی ہے ۔ جو اس پر چلا ، وہ یہاں راست رو اور آخرت میں کامیاب و بامراد ہے ، اور جس نے اس راہ کو گم کر دیا ، وہ یہاں غلط ہیں ، غلط رو اور غلط کار ہے ، اور آخرت میں لامحالہ اسے دوزخ میں جانا ہے ، کیونکہ زندگی کے تمام ٹیڑھے راستے دوزخ ہی کی طرف جاتے ہیں ۔ موجودہ زمانہ کے بعض نادان فلسفیوں نے یہ دیکھ کر کہ انسانی زندگی پے در پے ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف دھکے کھاتی چلی جا رہی ہے ، یہ غلط نتیجہ نکال لیا کہ ”جَدَلی عمل“ ( Dialectical Process ) انسانی زندگی کے ارتقاء کا فطری طریق ہے ۔ وہ اپنی حماقت سے یہ سمجھ بیٹھے کہ انسان کے ارتقاء کا راستہ یہی ہے کہ پہلے ایک انتہا پسندانہ دعویٰ ( Thesis ) اسے ایک رخ پر بہا لے جائے ، پھر اس کے جواب میں دوسرا ویسا ہی انتہا پسندانہ دعویٰ ( Antithesis ) اسے دوسری انتہا کی طرف کھینچے ، اور پھر دونوں کے امتزاج ( Synthesis ) سے ارتقاء حیات کا راستہ بنے ۔
حالانکہ دراصل یہ ارتقاء کی راہ نہیں ہے بلکہ بد نصیبی کے دھکے ہیں جو انسانی زندگی کے صحیح ارتقاء میں بار بار مانع ہو رہے ہیں ۔ ہر انتہا پسندانہ دعویٰ زندگی کو اس کے کسی ایک پہلو کی طرف موڑتا ہے اور اسے کھینچے لیے چلا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ جب وہ سَوَاء السّبیل سے بہت دور جا پڑتی ہے تو خود زندگی ہی کی بعض دوسری حقیقتیں ، جن کے ساتھ بے انصافی ہو رہی تھی ، اس کے خلاف بغاوت شروع کر دیتی ہیں اور یہ بغاوت ایک جوابی دعوے کی شکل اختیار کر کے اسے مخالف سمت میں کھینچنا شروع کر تی ہے ۔ جوں جوں سَوَاءالسّبیل قریب آتی ہے ان متصادم دعوؤں کے درمیان مصالحت ہونے لگتی ہے اور ان کے امتزاج سے وہ چیزیں وجود میں آتی ہیں جو انسانی زندگی میں نافع ہیں ۔ لیکن جب وہاں نہ سَوَاء السّبیل کے نشانات دکھانے والی روشنی موجود ہوتی ہے اور نہ اس پر ثابت قدم رکھنے والا ایمان ، تو وہ جوابی دعویٰ زندگی کو اس مقام پر ٹھیرنے نہیں دیتا بلکہ اپنے زور میں اسے دوسری جانب انتہا تک کھینچتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ پھر زندگی کی کچھ دوسری حقیقتوں کی نفی شروع ہو جاتی ہے اور نتیجہ میں ایک دوسری بغاوت اٹھ کھڑی ہوتی ہے ۔ اگر ان کم نظر فلسفیوں تک قرآن کی روشنی پہنچ گئی ہوتی اور انہوں نے سَوَاء السّبیل کو دیکھ لیا ہوتا تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ انسان کے لیے ارتقاء کا صحیح راستہ یہی سواء السّبیل ہے کہ خط منحنی پر ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف دھکے کھاتے پھرنا ۔ [تفہیم القرآن]
بسم اللہ