Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

آیات قرآن کو جھٹلانے والوں منکرین کا برا انجام


 جو لوگ ہالله کی آیات کو جھُٹلائیں گےاور ان کے مقابلہ میں سرکشی برتیں گےوہی اہلِ دوزخ ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم 0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَلَقَدۡ جِئۡنٰهُمۡ بِكِتٰبٍ فَصَّلۡنٰهُ عَلٰى عِلۡمٍ هُدًى وَّرَحۡمَةً لِّـقَوۡمٍ يُّؤۡمِنُوۡنَ‏ ۞ 
(القرآن - سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 52)
ترجمہ:
ہم اِن لوگوں کے پاس ایک ایسی کتاب لے آئے ہیں جس کو ہم نے علم کی بنا پر مفصّل بنایا ہے اور جو ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔

وَالَّذِيۡنَ كَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِنَا وَاسۡتَكۡبَرُوۡا عَنۡهَاۤ اُولٰۤئِكَ اَصۡحٰبُ النَّارِ‌ۚ هُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ‏ ۞ (القرآن - سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 36)
ترجمہ:
اور جو لوگ ہماری آیات کو جھُٹلائیں گےاور ان کے مقابلہ میں سرکشی برتیں گےوہی اہلِ دوزخ ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

اِنَّ الَّذِيۡنَ كَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِنَا وَاسۡتَكۡبَرُوۡا عَنۡهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمۡ اَبۡوَابُ السَّمَآءِ وَلَا يَدۡخُلُوۡنَ الۡجَـنَّةَ حَتّٰى يَلِجَ الۡجَمَلُ فِىۡ سَمِّ الۡخِيَاطِ‌ ؕ وَكَذٰلِكَ نَجۡزِى الۡمُجۡرِمِيۡنَ ۞ لَهُمۡ مِّنۡ جَهَـنَّمَ مِهَادٌ وَّمِنۡ فَوۡقِهِمۡ غَوَاشٍ‌ ؕ وَكَذٰلِكَ نَجۡزِى الظّٰلِمِيۡنَ ۞ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَا نُـكَلِّفُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَهَاۤ  اُولٰۤئِكَ اَصۡحٰبُ الۡجَـنَّةِ‌ۚ هُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ ۞ (القرآن - سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 40-42)
ترجمہ:
یقین جانو، جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے اور ان کے مقابلہ میں سرکشی کی ہے ان کے لیے آسمان کے دروازے ہرگز نہ کھولے جائیں گے اُن کا جنت میں جانا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا مجرموں کو ہمارے ہاں ایسا ہی بدلہ ملا کرتا ہے ۞ ان کے لیے تو جہنم کا بچھونا ہوگا اور جہنم ہی کا اوڑھنا یہ ہے وہ جزا جو ہم ظالموں کو دیا کرتے ہیں ۞ بخلاف اس کے جن لوگوں نے ہماری آیات کو مان لیا ہے اور اچھے کام کیے ہیں اور اس باب میں ہم ہر ایک کو اس کی استطاعت ہی کے مطابق ذمہ دار ٹھیراتے ہیں وہ اہل جنت ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۞
اللہ کی آیات کے معنی تبدیل کرنا ، جھٹلانا بہت بڑا گناہ کبیرہ ہے جس میں اہل علم مبتلا ہو کر دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں 
۔۔۔ 
تفصیل 》》》》
اللہ کی آیات کو جھٹلانے والوں کا برا انجام

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِي آتَيْنَاهُ آيَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ ﴿١٧٥﴾ وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَـٰكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ ۚ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَث ۚ ذَّٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ﴿١٧٦﴾ سَاءَ مَثَلًا الْقَوْمُ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَأَنفُسَهُمْ كَانُوا يَظْلِمُونَ ﴿١٧٧﴾
اور اے محمدؐ، اِن کے سامنے اُس شخص کا حال بیان کرو جس کو ہم نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا مگر وہ ان کی پابندی سے نکل بھاگا آخرکار شیطان اس کے پیچھے پڑ گیا یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو کر رہا (175) اگر ہم چاہتے تو اسے اُن آیتوں کے ذریعہ سے بلندی عطا کرتے، مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جھک کر رہ گیا اور اپنی خواہش نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا، لہٰذا اس کی حالت کتے کی سی ہو گئی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور اسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے یہی مثال ہے اُن لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں تم یہ حکایات اِن کو سناتے رہو، شاید کہ یہ کچھ غور و فکر کریں (176) بڑی ہی بری مثال ہے ایسے لوگوں کی جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا، اور وہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے ہیں (7:177) 
ان الفاظ سے ایسا محسوس ہوتا ہے  کہ وہ ضرور کوئی متعین شخص ہوگا جس کی طرف اشارہ فرما یا گیا ہے لیکن اللہ اور اس کے رسول کی یہ انتہائی اخلاقی بلندی ہے کہ وہ جب کبھی کسی کی برائی کو مثال میں پیش کرتے ہیں تو بالعموم اس کے نام کی تصریح نہیں کرتے بلکہ اس کی شخصیت پر پردہ ڈال کر صرف اس کی بُری مثال کا ذکر کردیتے ہیں تا کہ اس کی رسوائی کیے بغیر اصل مقصد حاصل ہو جائے۔ اسی لیے نہ قرآن میں بتایا گیا ہے اور نہ کسی صحیح حدیث میں کہ وہ شخص جس کی مثال یہاں پیش کی گئی ہے ، کون تھا۔ مفسرین نے عہد رسالت اور اس سے پہلے کی تاریخ کے مختلف اشخاص پر اس مثال کو چسپاں کیا ہے ۔ کوئی بلعم بن با عوراء کا نام لیتا ہے، کوئی اُمیّہ  بن ابی الصَّلت کا، اور کوئی صَیفی ابن الراہب کا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ خاص شخص تو پردہ میں ہے جو اس تمثیل میں پیش نظر تھا، البتہ یہ تمثیل ہر اس شخص پر چسپاں پوتی ہے جس میں یہ صفت پائی جاتی ہو۔

 ان دو مختصر  سے فقروں میں بڑا اہم مضمون ارشاد ہوا ہے جسے ذرا تفصیل کے ساتھ سمجھ لینا چاہیے۔
وہ شخص جس کی مثال یہاں پیش کی گئی ہے، آیات الہٰی کا علم رکھتا تھا، یعنی حقیقت سے واقف تھا۔ اس علم کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ اس رویہ سے بچتا جس کو وہ غلط جانتا تھا اور وہ طرزِ عمل اختیار کرتا جو اسے معلوم تھا کہ صحیح ہے۔ اسی عمل مطابقِ علم کی بدولت اللہ تعالیٰ اس کو انسانیت کے بلند مراتب پر ترقی عطا کرتا۔ لیکن وہ دنیا کے فائدوں اور لذتوں اور آرائشوں کی طرف جھک پڑا، خواہشاتِ نفس کے تقاضوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے اُس نے ان کے آگے سپر ڈال دی، معالیِ امور کی طلب میں  دنیا کی حرص و طمع سے بالا تر ہونے کے بجائے وہ اس حرص و طمع سے ایسا مغلوب ہوا کہ اپنے سب اُونچے ارادوں اور اپنی عقلی و اخلاقی ترقی کے سارے امکانات کو طلاق دے بیٹھا  اور اُن تمام حدود کو توڑ کر نکل  بھا گا جن کی نگہداشت کا تقاضا خود اُس کا علم کر رہا تھا۔ پھر جب وہ محض اپنی اخلاقی کمزوری کی بنا پر جانتے بوجھتے حق سے منہ موڑ کر بھاگا تو شیطان جو قریب ہی اس کی گھات میں لگا ہوا تھا۔، اس کے پیچھے لگ گیا اور برابر اُسے ایک پستی سے دوسری پستی کی طرف لے جاتا رہا یہاں تک کہ ظالم نے اسے اُن لوگوں کے زمرے میں پہنچا کر ہی دم لیا جو اس کے دام میں پھنس کر پوری طرح اپنی متاعِ عقل وہوش گم کر چکے ہیں۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس شخص کی حالت کو کُتّے سے تشبیہ دیتا ہے جس کی ہر وقت لٹکی ہوئی زبان اور ٹپکتی ہوئی رال ایک نہ بجھنے والی آتشِ حرص اور کبھی نہ سیر ہونے والی نیت کا پتہ دیتی ہے۔ بنائے تشبیہ وہی ہے جس کی وجہ سے ہم اپنی اُردو زبان میں ایسے شخص کو دنیا کی حرص میں اندھا ہو رہا ہو، دنیا کا کتّا کہتے ہیں کُتّے کی جبلت کیا ہے؟ حرص و آز۔ چلتے پھرتے اس کی ناک زمین سونگھنے ہی میں لگی رہتی ہے کہ شاید کہیں سے بو ئے طعام آجائے۔ اسے پتھر مار یے تب بھی اس کی یہ توقع دور نہیں ہوتی کہ شاید یہ چیز جو پھینکی گئی ہے کوئی ہڈی یا روٹی کا کوئی ٹکڑا ہو۔ پیٹ کا بندہ ایک دفعہ تو لپک کر اس کو بھی دانتوں سے پکڑہی لیتا ہے۔ اس سے بے التفاتی کیجیے تب بھی وہ لالچ کا مارا توقعات کی ایک دنیا دل میں لیے، زبان لٹکائے، ہانپتا کانپتا کھڑا ہی رہے گا۔ ساری دنیا کو وہ بس پیٹ ہی کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ کہیں کوئی بڑی سی لاش پڑی ہو، جو کئی کتوں کے کھانے کو کافی ہو ، تو ایک کتا اس میں سے صرف اپنا حصہ لیتے پر اکتفا نہ کرے گا بلکہ اسے صرف اپنے ہی لیے مخصوص رکھنا چاہیگا اور کسی دوسرے کتے کو اس کےپاس نہ بھٹکنے دے گا۔اس شہوت شکم کے بعد اگر کوئی چیز اس پر غالب ہے تو وہ ہے شہوتِ فَرج۔ اپنے سارے جسم میں صرف ایک شرمگاہ ہی وہ چیز ہے جس سے  وہ دل چسپی رکھتا ہے اور اسی کو سونگھنے اورچاٹنے میں مشغول رہتا ہے۔ پس تشبیہ کا مدعا یہ ہے کہ دنیا پر ست آدمی جب علم اور ایمان کی رسّی تُڑا کر بھاگتا ہے اور نفس کی اندھی خواہشات کے ہاتھ میں اپنی باگیں دے دیتا ہے  تو پھر کتے کی حالت کو پہنچے بغیر نہیں رہتا ، ہمہ تن پیٹ اور ہمہ تن شرمگاہ۔ [تفہیم القرآن ]
.............
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم 0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاِلٰى عَادٍ اَخَاهُمۡ هُوۡدًا‌ ؕ قَالَ يٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰهَ مَا لَـكُمۡ مِّنۡ اِلٰهٍ غَيۡرُهٗ ؕ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ ۞ (القرآن - سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 65)
ترجمہ:
اور عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود ؑ کو بھیجا۔ اس نے کہا ”اے برادرانِ قوم، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سِوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔ پھر کیا تم غلط روی سے پرہیز نہ کروگے؟“

"عاد" عرب کی قدیم ترین قوم تھی جس کے افسانے اہل عرب میں زبان زدعام تھے۔ بچہ بچہ ان کے نام سے واقف تھا۔ ان کی شوکت و حشمت ضرب المثل تھی۔ پھر دنیا سے ان کا نام و نشان تک مٹ جانا بھی ضرب المثل ہو کر رہ گیا تھا۔ اسی شہرت کی وجہ سے عربی زبان میں ہر قدیم چیز کے لیے عادی کا لفظ بولا جاتا ہے۔ آثار قدیمہ کو عادیّات کہتے ہیں۔ جس زمین کے مالک باقی نہ رہے ہوں اور جو آباد کار نہ ہونے کی وجہ سے افتادہ پڑی ہوئی ہو اسے عادیُّ الارض کہا جاتا ہے۔ قدیم عربی شاعری میں ہم کو بڑی کثرت سے اس قوم کا ذکر ملتا ہے۔ عرب کے ماہرین انساب بھی اپنے ملک کی معدوم شدہ قوموں میں سب سے پہلے اسی قوم کا نام لیتے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ نبی ﷺ کی خدمت میں بنی ذہل بن شیبان کے ایک صاحب آئے جو عاد کے علاقہ کے رہنے والے تھے اور انہوں نے وہ قصے حضور کو سنائے جو اس قوم کے متعلق قدیم زمانوں سے ان کے علاقہ کے لوگوں میں نقل ہوتے چلے آرہے تھے۔
قرآن کی رو سے اس قوم کا اصل مسکن احقاف کا علاقہ تھا جو حجاز، یمن اور یمامہ کے درمیان الرَّبع الخالی کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ یہیں سے پھیل کر ان لوگوں نے یمن کے مغربی سواحل اور عمان و حضرموت سے عراق تک اپنی طاقت کا سکّہ رواں کردیا تھا۔ تاریخی حیثیت سے اس قوم کے آثار دنیا سے تقریباً ناپید ہوچکے ہیں، لیکن جنوبی عرب میں کہیں کہیں کچھ پر نے کھنڈر موجود ہیں جنہیں عاد کی طرف نسبت دی جاتی ہے حضرموت میں ایک مقام پر حضرت ہود ؑ کی قبر بھی مشہور ہے۔ 1837 میں ایک انگریز بحری افسر (James R. Wellested) کو حصن غراب میں ایک پرانا کتبہ ملا تھا جس میں حضرت ہود ؑ کا ذکر موجود ہے اور عبارت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان لوگوں کی تحریر ہے جو شریعت ہود کے پیرو تھے۔ 

فَاَنۡجَيۡنٰهُ وَالَّذِيۡنَ مَعَهٗ بِرَحۡمَةٍ مِّنَّا وَ قَطَعۡنَا دَابِرَ الَّذِيۡنَ كَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِنَا‌ وَمَا كَانُوۡا مُؤۡمِنِيۡنَ  ۞ (القرآن - سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 72)
ترجمہ:
آخرِکار ہم نے اپنی مہربانی سے ہود ؑ اور اس کے ساتھیوں کو بچا لیا اور اُن لوگوں کی جڑ کاٹ دی جو ہماری آیات کو جُھٹلا چکے تھے اور ایمان لانے والے نہ تھے۔ 

جڑ کاٹ دی، یعنی ان کا استیصال کردیا اور ان کا نام و نشان تک دنیا میں باقی نہ چھوڑا۔ یہ بات خود اہل عرب کی تاریخی روایات سے بھی ثابت ہے، اور موجودہ اثری اکتشافات بھی اس پر شہادت دیتے ہیں کہ عاد اولیٰ بالکل تباہ ہوگئے اور ان کی یادگاریں تک دنیا سے مٹ گئیں۔ چناچہ مورخین عرب انہیں عرب کی امم بائدہ (معدوم اقوام) میں شمار کرتے ہیں۔ پھر یہ بات بھی عرب کے تاریخی مسلّمات میں سے ہے کہ عاد کا صرف وہ حصہ باقی رہا جو حضرت ہود کا پیرو تھا۔ انہی بقایائے عاد کا نام تاریخ میں عاد ثانیہ ہے اور حصن غراب کا وہ کتبہ جس کا ہم ابھی ابھی ذکر کرچکے ہیں انہی کی یادگاروں میں سے ہے۔ اس کتبہ میں (جسے تقریباً 18 سو برس قبل مسیح کی تحریر سمجھا جاتا ہے) ماہرین آثار نے جو عبارت پڑھی ہے اس کے چند جملے یہ ہیں۔

”ہم نے ایک طویل زمانہ اس قلعہ میں اس شان سے گزارا ہے کہ ہماری زندگی تنگی و بد حالی سے دور تھی، ہماری نہریں دریا کے پانی سے لبریز رہتی تھیں۔۔۔۔۔ اور ہمارے حکمران ایسے بادشاہ تھے جو برے خیالات سے پاک اور اہل شر و فساد پر سخت تھے، وہ ہم پر ہود کی شریعت کے مطابق حکومت کرتے تھے اور عمدہ فیصلے ایک کتاب میں درج کرلیے جاتے تھے، اور ہم معجزات اور موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان رکھتے تھے۔“

یہ عبارت آج بھی قرآن کے اس بیان کی تصدیق کر رہی ہے کہ عاد کی قدیم عظمت و شوکت اور خوشحالی کے وارث آخر کار وہی لوگ ہوئے جو حضرت ہود پر ایمان لائے تھے۔
(تفہیم القران )
~~~~~~~
🔰 *Don't Discard Quran قرآن کو نظر انداز مت کریں* 🔰

*قرآن ہدایت کی واحد، آخری ، مکمل ، محفوظ کتاب اللہ ہے ، بلاشک و شبہ* جبکہ باقی تمام کتابیں انسانی تحریریں، جو مکمل ہونے، غلطی، شک و شبہ سے مبرا ہونے کا دعوی نہیں کر سکتیں. مگر پھر بھی مسلمان قرآن کو نظر انداز کرتے ہیں: 
*"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" ( الفرقان 25  آیت: 30)*

*Quran is the Only Last, Complete, Protected Divine Book of Guidance, without any doubt*, all other books are human efforts, cannot claim to be complete, free from error and doubt, yet Muslims have discarded Quran: 
*"The Messenger will say, Lord, my people did indeed discard the Quran" (Quran 25:30)*
Explore ....
https://Quran1book.blogspot.com
https://Quransubjects.blogspot.com

Popular Books