Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

قربانی ‏کی ‏شرعی ‏حیثیت ‏، سوالات ، جوابات ، قربانی کے مسائل



قربانی تمام شرائع الہٰیہ کے نظام عبادت کا ایک لازمی جز رہی ہے ۔ توحید فی العبادت کے بنیادی تقاضوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان نے جن جن صورتوں سے غیر اللہ کی بندگی کی ہے ان سب کو غیر اللہ کے لیے ممنوع کر کے صرف اللہ کے لیے مختص کر دیا جائے -
مسلمان ہر سال 10 ذوالحجہ کو حضرت ابراہیم کی سنت ادا کرتے ہوئے حلال جانور قربان کرتے ہیں اسی کو قربانی کہتے ہیں۔حضرت اسماعیل علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بڑے صاحبزادے تھے۔ حضرت ہاجرہ کے بطن سے پیدا ہوئے۔ بچے ہی تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کو ان کی والدہ حضرت ہاجرہ کو ﷲ کے حکم سےاس بنجر اور ویران علاقے میں چھوڑ دیا جو اب مکہ معظمہ کے نام سے مشہور ہے۔ اور عالم اسلام کا قبلہ ہے۔ ایک دن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تمیں ذبح کر رہا ہوں۔ اب تم بتاؤ کہ تمہاری کیا رائے ہے؟ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ مجھے ثابت قدیم پائیں گے۔ جب حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو منھ کے بل ذبح کرنے لیے لٹایا تو خدا کی طرف سے آواز آئی۔ اے ابراہیم ! تو نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا۔ ہم احساس کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں اور ہم نے اس کے لیے ذبح عظیم کا فدیہ دیا۔ مفسرین کا بیان ہے کہ اللہ  کی طرف سے ایک مینڈھا آگیا جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ذبح کیا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اسی قربانی کی یاد میں ہر سال مسلمان عید الاضحیٰ مناتے ہیں۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام جوان ہوئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کی مدد سے مکے میں خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی اور اس طرح دنیا میں اللہ کا پہلا گھر تیار ہوا۔

 قربانی دین اسلام کے شعائر میں سے ایک شعار ہے:

وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلۡنَا مَنۡسَکًا لِّیَذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَہُمۡ مِّنۡۢ بَہِیۡمَۃِ الۡاَنۡعَامِ ؕ فَاِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ  وَّاحِدٌ فَلَہٗۤ اَسۡلِمُوۡا ؕ وَ  بَشِّرِ  الۡمُخۡبِتِیۡنَ ﴿ۙ۳۴﴾
اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وہ اِن  چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں  سمجھ لو کہ تم سب کا معبود برحق صرف ایک ہی ہے تم اسی کے تابع فرمان ہو جاؤ عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے!  (سورة الحج 22  آیت: 34)
 
"And for all religion We have appointed a rite [of sacrifice] that they may mention the name of Allah over what He has provided for them of [sacrificial] animals. For your god is one God, so to Him submit. And, [O Muhammad], give good tidings to the humble [before their Lord] [ Surat ul Hajj: 22 Verse: 34]
Animal sacrifice is the ritual killing and offering of an animal usually as part of a religious ritual or to appease or maintain favour with a deity. Animal sacrifices were common throughout Europe and the Ancient Near East until the spread of Christianity in Late Antiquity, and continue in some cultures or religions today. .Keep reading ...[......]

"منسک" نسک ینسک کا مصدر ہے معنی ہیں اللہ کے تقرب کے لیے قربانی کرنا ، ذبیحۃ (ذبح شدہ جانور) کو بھی نسیکۃ کہا جاتا ہے جس کی جمع نسک ہے اس کے معنی اطاعت و عبادت کے بھی ہیں کیونکہ رضائے الٰہی کے لئے جانور کی قربانی کرنا عبادت ہے۔ اسی لئے غیر اللہ کے نام پر یا ان کی خوشنودی کے لئے جانور ذبح کرنا غیر اللہ کی عبادت ہے، جہاں حج کے اعمال و ارکان ادا کئے جاتے ہیں، جیسے عرفات، مزدلفہ، منٰی اور مکہ۔ مطلق ارکان و اعمال حج کو بھی مناسک کہہ لیا جاتا ہے۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ ہم پہلے بھی ہر مذہب والوں کے لئے ذبح کا یا عبادت کا یہ طریقہ مقرر کرتے آئے ہیں تاکہ وہ اس کے ذریعے سے اللہ کا قرب حاصل کرتے رہیں۔ اور اس میں حکمت یہ ہے کہ ہمارا نام لیں۔ یعنی بسم اللہ واللہ اکبر کہہ کر ذبح کریں یا ہمیں یاد رکھیں-

لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلۡنَا مَنۡسَکًا ہُمۡ نَاسِکُوۡہُ فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِی الۡاَمۡرِ وَ ادۡعُ اِلٰی رَبِّکَ ؕ اِنَّکَ لَعَلٰی ہُدًی مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿۶۷﴾
ہم نے ہر امتّ کے لیے قربانی (اور عبادت) کے طریقے مقرر کردیے ہیں جن کی وہ پیروی کرتے ہیں تو انہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس معاملے میں جھگڑنا نہیں چاہیے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کی طرف بلاتے رہیے۔ یقیناً آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہدایت کے سیدھے راستے پر ہیں (٢٢:٦٧)
(لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا ہُمْ نَاسِکُوْہُ فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِی الْاَمْرِ ) ” یعنی بنی اسرائیل کے لیے قربانی کا طریقہ اور تھا ‘ بنی اسماعیل کسی اور طریقے سے قربانی کرتے تھے ‘ جبکہ مسلمانوں کو ان دونوں سے مختلف طریقہ بتایا گیا ہے۔ یہ ہر امت کی اپنی اپنی شریعت کا معاملہ ہے ‘ اس میں جھگڑنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ یہ مضمون اس سے پہلے آیت ٣٤ میں اس طرح آچکا ہے : (وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَہُمْ مِّنْم بَہِیْمَۃِ الْاَنْعَامِط فَاِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗٓ اَسْلِمُوْاط وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ ) ” اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک طریقہ بنایا ہے تاکہ وہ اللہ کا نام لیاکریں ان مویشیوں پر جو اس نے انہیں عطا کیے ہیں۔ تو (جان لو کہ) تمہارا معبود ایک ہی ہے ‘ چناچہ تم اس کے سامنے سرتسلیم خم کرو ‘ اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بشارے دے دیجیے عاجزی اختیار کرنے والوں کو۔ “[بیان القرآن ، ڈاکٹر اسرار احمد ]

فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْO
پس آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھا کریں اور قربانی دیا کریں (یہ ہدیہ تشکرّ ہے)۔ [الْکَوْثَر،2 :108]
 یعنی نماز بھی صرف اللہ کے لیے اور قربانی بھی صرف اللہ کے لیے ہے مشرکین کی طرح اس میں دوسروں کو شریک نہ کرو۔ نحر کے اصل معنی اونٹ کے حلقوم میں چھری یا نیزہ مار کر اسے ذبح کرنا۔ دوسرے جانوروں کو زمین پر لٹا کر ان کے گلوں پر چھری پھیری جاتی ہے اسے ذبح کرنا کہتے ہیں۔ لیکن یہاں نحر سے مراد مطلق قربانی ہے، علاوہ ازیں اس میں بطور صدقہ و خیرات جانور قربان کرنا، حج کے موقعے پر منیٰ میں اور عیدالاضحیٰ کے موقعے پر قربانی کرنا، سب شامل ہیں۔
درج بالا آیتِ مبارکہ میں اِنْحَرْ صیغہ امر ہے اور عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ جب امر کو مطلق ذکر کیا جائے تو اس سے وجوب مراد ہوتا ہے۔ لہٰذا اس آیت سے قربانی کا واجب و ضروری ہونا ثابت ہوتا ہے۔

قربانی سنتِ ابراہیمی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا قربانیاں کیسی ہیں ؟ فرمایا: تمھارے باپ ابراہیم کی سنت ہے   ( مسند احمد ، ترمذی ،ابنَ ماجہ)
مخنف بن سلیم رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم عرفہ میں رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کھڑے تھے، آپ نے فرمایا:
اَيُّهَا النَّاسُ! إِنَّ عَلٰى كُلِّ اَهْلِ بَيْتٍ فِي كُلِّ عَامٍ اُضْحِيَّةً.
’اے لوگو! ہر سال ہر گھر والے پر ایک قربانی واجب ہے۔ [احمد بن حنبل، مسند احمد، 4: 215]
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ کَانَ له سعة فلم يضح ، فلا يقربن مصلانا.
’جو آسودہ حال ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔‘ [ابن ماجه، رقم الحديث: 3123]
مذکورہ احادیث میں رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کرنے کا حکم فرمایا اور قربانی نہ کرنے والوں پر اظہار ناراضگی فرمایا ہے۔ ناراضگی کا اظہار اسی مقام پر ہوتا ہے جہاں کوئی چیز واجب و ضروری ہو۔
ایک موقف یہ ہے کہ یہ  واجب ہے اور دوسرا موقف کہ سنت مؤکدہ ہے،
قربانی کے مسنون یا واجب ہونے کیلیے شرط یہ ہے کہ: قربانی کرنے والا شخص صاحبِ حیثیت ہو، مثلاً:  قربانی کی رقم  ذاتی ضروریات اور ماتحت پرورش پانے والوں کی ضروریات سے فاضل ہو، چنانچہ اگر  کسی مسلمان کی اتنی ماہانہ تنخواہ  یا آمدن ہے  جو اس کی ضروریات کیلیے کافی ہے نیز اس کے پاس قربانی کی قیمت بھی ہے، تو اس کیلیے قربانی کرنا شرعی عمل ہے۔ اگر ان میں سے کوئی شرط نہ پائی جائے تو اس صورت میں قربانی واجب نہیں بلکہ سنت و نفل ہوگی-
صاحبِ حیثیت ہونے کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں ہے: (جس کے پاس استطاعت بھی ہو اور پھر بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے)
ابن ماجہ (3123) اسے البانی سے  "صحیح ابن ماجہ" میں صحیح کہا ہے۔
ایک گھر میں رہنے والے افراد  کیلیے قربانی کرنا شرعی عمل ہے؛ اس کی دلیل نبی ﷺ کا فرمان ہے: (بیشک  ہر گھرانے پر ہر سال  قربانی ہے) احمد (20207)
حافظ ابن حجر "فتح الباری " میں کہتے ہیں اس کی سند قوی ہے، اسے البانی رحمہ اللہ نے صحیح سنن ابو داود (2788)میں  حسن قرار دیا ہے۔
نیز قربانی کے مسئلے میں مرد یا عورت  کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، چنانچہ اگر کوئی خاتون  تنہا رہتی ہے یا اس کے ساتھ اس کے بچے بھی ہیں تو ان پر بھی قربانی ضروری ہے۔
چنانچہ "الموسوعة الفقهية" (5/81) میں ہے کہ:
"قربانی کے واجب یا مسنون ہونے کیلیے مرد ہونا شرط نہیں ہے؛ لہذا جس طرح قربانی مردوں پر واجب ہے اسی طرح خواتین پر بھی واجب ہے؛ کیونکہ قربانی واجب یا مسنون ہونے  کے تمام دلائل  میں مرد و خواتین  یکساں شامل ہوتے ہیں" انتہی مختصراً
دیکھیں: " الموسوعة الفقهية " ( 5 / 79 – 81 )
واللہ اعلم.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الاضحيۃ : ایام عید الاضحی میں اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کے لیے بھیمۃ الانعام میں سے کوئي جانورذبح کرنے کوقربانی کہا جاتا ہے ( بھیمۃ الانعام بھیڑ بکری اونٹ گائے کوکہتے ہیں )
آپ کہہ دیجیے یقینا میری نماز اورمیری ساری عبادت اورجینا میرا مرنا یہ سب خالص اللہ تعالی ہی کا ہے جوسارے رب کا مالک ہے ، اس کا کوئي شریک نہيں اورمجھ کواسی کا حکم ہوا ہے اورمیں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں  ۔
سنت نبویہ سے دلائل :
صحیح بخاری اورمسلم کی روایت ہے کہ انس بن مالک رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سیاہ وسفید مینڈھوں کی قربانی دی انہيں اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور( ذبح کرتے ہوئے ) بسم اللہ اللہ اکبر کہا اوراپنا پاؤں ان کی گردن پررکھا ۔ [ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5558 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1966 ) ۔]
 عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ :
( نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ شریف میں دس برس قیام کیا اورہر برس قربانی کیا کرتے تھے ) ۔
مسند احمد حدیث نمبر ( 4935 ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1507 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے مشکاۃ المصابیح ( 1475 ) میں اس حدیث کوحسن قرار دیا ہے ۔
عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کے مابین قربانیاں تقسیم کیں توعقبہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حصہ میں جذعہ آیا تووہ کہنے لگے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے حصہ میں جذعہ آیا ہے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کوہی ذبح کردو ۔ دیکھیں صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5547 ) ۔
براء بن عازب رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جس نے بھی نماز ( عید ) کے بعد ( قربانی کا جانور ) ذبح کیا تواس کی قربانی ہوگئي ، اوراس نے مسلمانوں کی سنت پرعمل کرلیا ) ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5545 ) ۔
تواس طرح معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی قربانی کے جانور ذبح کیے اورصحابہ کرام رضي اللہ تعالی عنہم بھی قربانی کرتے رہے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ بتایا کہ قربانی کرنا مسلمانوں کی سنت یعنی ان کا طریقہ ہے ۔

لھذا مسلمانوں کا قربانی کی مشروعیت پراجماع ہے ، جیسا کہ کئي ایک اہل علم نے بھی اس اجماع کونقل بھی کیاہے ۔
اوراہل علم کااس میں اختلاف ہے کہ آیا قربانی کرنا سنت موکدہ ہے یا کہ واجب جس کا ترک کرنا جائز نہيں ؟
جمہورعلماءکرام کا مسلک یہ ہے کہ قربانی کرنا سنت موکدہ ہے ، امام شافعی کا مسلک بھی یہی ہے اورامام مالک اورامام احمد سے بھی مشہور مسلک یہی ہے ۔
اوردوسرے علماء کرام کہتے ہیں کہ قربانی کرنا واجب ہے ، یہ امام ابوحنفیہ رحمہ اللہ کا مسلک ہے اورامام احمد کی ایک روایت یہ بھی ہے ، اورشیخ الاسلام ابن تمیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے بھی اسے ہی اختیار کرتے ہوئے کہا ہے :
یہ مسلک مالکی مذھب کا ایک قول ہے یا امام مالک کے مذھب کا ظاہر ۔ انتھی ۔
دیکھیں : احکام الاضحیۃ والذکاۃ تالیف ابن عثیمین رحمہ اللہ ۔
شیخ محمد بن عثيمین رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
جوشخص قربانی کرنے کی استطاعت رکھتا ہواس کے لیے قربانی کرنا سنت مؤکدہ ہے ، لھذا انسان اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کرے ۔
دیکھیں : فتاوی ابن عثیمین ( 2 / 661 ) ۔ واللہ اعلم .----------
 عیدالاضحی دس ذی الحجہ کے دن میں آتی ہے اوریہ دونوں عیدوں میں بڑی اورافضل عیدہے اورحج کے مکمل ہونے کے بعدآتی ہے جب مسلمان حج مکمل کرلیتے ہیں تواللہ تعالٰی انہیں معاف کردیتا ہے۔ اس لیے حج کی تکمیل یوم عرفہ میں وقوف عرفہ پرہوتی ہے جو حج کاایک عظیم رکن ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : یوم عرفہ آگ سے آزادی کا دن ہے جس میں اللہ تعالٰی ہر شخص کوآگ سے آزادی دیتے ہیں عرفات میں وقوف کرنے والے اوردوسرے ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کو بھی آزادی ملتی ہے۔ 
1 - یہ دن اللہ تعالٰی کے ہاں سب سے بہترین دن ہے : حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالٰی نے زاد المعاد ( 1 / 54 ) میں کہتے ہیں : [اللہ تعالٰی کے ہاں سب سے افضل اوربہتر دن یوم النحر ( عیدالاضحی ) کا دن ہے اوروہ حج اکبروالا دن ہے ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : یقینا یوم النحر اللہ تعالٰی کے ہاں بہترین دن ہے 
2 – یہ حج اکبر والا دن ہے : ابن عمررضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس حج کے دوران میں جوانہوں نے کیا تھایوم النحر( عید الاضحی ) والے دن جمرات کے درمیان میں کھڑے ہوکرفرمانے لگے یہ حج اکبر والا دن ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یوم عرفہ اوریوم النحر اورایام تشریق ہم اہل اسلام کی عید کے دن ہیں اوریہ سب کھانے پینے کے دن ہیں۔

https://islamqa.info/.../قربانی-کرنے-والے-کے-اہل-وعیال-عشرہ-ذی-الحجہ-میں -اپنے-بال-اورناخن-وغیرہ-کاٹ-سکتے-ہیں
10 دسمبر 2007 ... سوال. جب مرد نے قربانی کرنی ہوتوکیا اس کی بیوی اوربچوں کے لیے ذی الحجۃ کا چاند نظر آنے کےبعد اپنےبال اورناخن وغیرہ کاٹنے جائز ہیں ؟
https://islamqa.info/ur/answers/36755/قربانی-کی-شراىط
14 اکتوبر 2012 ... قربانی کا جانور شرعی طور پر معین عمر کا ہونا ضروری ہے ، وہ اس طرح کہ بھیڑ کی نسل میں جذعہ [چھ ماہ کا بچہ ] قربانی کیلیے ذبح ہو سکتا ہے جبکہ ...
https://islamqa.info/ur/.../قربانی-کرنے-والا-کس-چيز-سے-اجتناب-کرے
1 نومبر 2011 ... کیا قربانی کرنے کا ارادہ رکھنےوالے کے لیے بال اورناخن کاٹنے جائز ہيں ؟ جواب کا متن. الحمد للہ شیخ عبدالعزيز بن باز رحمہ اللہ تعالی کہتے ...
https://islamqa.info/.../عید-کی-قربانی-کے-دلاىل-وجوب-پر-دلالت-کرتے- ہیں-یا-استحباب-پر
9 اگست 2018 ... خلاصہ: یہ ہے کہ قربانی کے واجب ہونے یا نہ ہونے میں اہل علم کا اختلاف ہے اور یہ معتبر قسم کا اختلاف ہے، ہمارے ہاں قربانی کے مستحب ہونے کا موقف ...
https://islamqa.info/.../عید-کی-قربانی-کرے-یا-اپنے-قریبی-رشتہ-دار-کو- علاج-کیلیے-قربانی-کی-رقم-دے-دے
24 اگست 2017 ... اصولی طور پر قربانی کی رقم صدقہ کرنے سے قربانی کرنا افضل ہے؛ کیونکہ قربانی کرنے سے جانور ذبح کر کے اس کا گوشت صدقہ کیا جاتا ہے ...
https://islamqa.info/.../کیا-یہ-صحیح-ہے-کہ-میاں-بیوی-قربانی-کے-جانور- کی-قیمت-میں-شریک-ہوں
4 اگست 2019 ... عید کی قربانی میں بکری یا مینڈھا صرف ایک آدمی کی طرف سے ذبح کیا جا سکتا ہے، اس لیے دو افراد ایک بکری یا مینڈھے میں شریک نہیں ہو ...
https://islamqa.info/.../ایک-ہی-قربانی-میاں-بیوی-اور-انکے-اہل-خانہ-کیلىے- کافی-ہوگی
30 ستمبر 2014 ... سوال: میرے والد صاحب اپنی طرف سے اور جوار رحمت میں منتقل ہوجانے والے اپنے والدین کی طرف سے قربانی کرتے آرہے ہیں ، لیکن میری والدہ کی ...
https://islamqa.info/.../ساىل-کے-ملک-میں-قربانی-بہت-مہنگی-ہے-تو-کیا- کسی-دوسرے-علاقے-میں-قربانی-کرنے-کیلیے-رقوم-منتقل-کر-دے
26 اگست 2017 ... قربانی کیلیے سنت یہی ہے کہ مسلمان اپنے علاقے میں ہی قربانی ذبح کرے، اس کی وجہ سے بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں بلکہ اگر مسلمان رفاہی ...
https://islamqa.info/ur/.../کیا-دو-یا-دو-سے-زیادہ-قربانی-کر-سکتا-ہے
19 ستمبر 2015 ... اول: قربانی کرنا شرعی اور نیک کام ہے، اور اسکا حکم فقہائے کرام کے مختلف اقوال کی روشنی میں سنت مؤکدہ یا واجب ہے۔ مزید کیلئے سوال ...

~~~~~~~
عیدالاضحی: سنت ابراہیمی کی پیروی کا دن

مسلمانوں کو دو عیدیں عطا کی گئیں، ایک ’’عیدالفطر‘‘ اور دوسری ’’عیدالاضحی‘‘ عیدالفطر ماہ رمضان کے بعد شوال کی پہلی تاریخ کو واقع ہوتی ہے، اس دن کا محبوب عمل صدقہ دینا اور دوگانہ نماز ادا کرنا ہے، عیدالاضحی ماہ ذی الحجہ کی دسویں،گیارہویں اور بارہویں تاریخ کو واقع ہوتی ہے، ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کی صبح کو دوگانہ نماز ادا کرنے کے بعد جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے، عید کی نماز سے پہلے قربانی کرنا جائز نہیں، قربانی کا یہ عمل تین دن تک جاری رہتا ہے۔

قربانی کے لیے جس جانور کا انتخاب کیا جائے وہ صحت مند ہونا چاہیے اونٹ، بھینس وغیرہ میں سات حصے کیے جاتے ہیں، لیکن بکرا یا بکری میں صرف ایک شخص ہی قربانی کرسکتا ہے۔

قربانی مستقل عبادت ہے جو صاحب نصاب پر واجب ہے اور جو صاحب نصاب نہ ہو اس کے لیے مستحب ہے، لیکن حج میں اس کی فضیلت اور بھی زیادہ ہے اور اس کی کثرت سے مرغوب ہے، خود نبی کریمؐ نے اپنے حج میں 100 اونٹ قربان کیے تھے۔ حضور اکرمؐ کا پاک ارشاد ہے کہ قربانی کرنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے اور قربانی کے جانورکے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ہے، ایک حدیث میں ہے کہ قربانی کا جانور جب ذبح ہوتا ہے تو پہلے قطرے پر قربانی کرنے والے کے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور قیامت کے دن قربانی کا جانور مع اپنے خون اور گوشت وغیرہ کے لایا جائے گا اور ستر درجے زیادہ وزنی بناکر اعمال کی ترازو میں رکھا جائے گا۔ (کنز)
حضور اقدسؐ نے اپنی اور اپنی تمام امت کی طرف سے قربانی کی تو امت کو بھی زیبا ہے کہ اپنی قربانی کے ساتھ حضور اقدسؐ کی طرف سے بھی ایک قربانی کیا کریں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیشہ ایک بکرا اپنی طرف سے قربانی کرتے تھے اور ایک حضورؐکی طرف سے۔کسی نے آپ سے دریافت کیا تو آپؓ نے فرمایا مجھے حضورؐ کا ارشاد ہے کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کروں، اس لیے میں ہمیشہ کرتا رہوں گا۔(کنز)

قربانی کا یہ عمل اللہ رب العزت کو بہت پسند ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ قربانی کرنے والے کو بہترین بدلہ عطا فرماتا ہے، رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص قربانی کے دن اپنی قربانی کے پاس جاتا ہے اور اسے اللہ کی راہ میں قربان کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بہشت کے قریب کردیتا ہے، جب قربانی کے خون کا پہلا قطرہ گرتا ہے تو قربانی کرنے والا بخش دیا جاتا ہے، قیامت میں یہی قربانی اس کی سواری ہوتی ہے، جانورکے بال اور پشم کے برابر اسے نیکیاں ملتی ہیں۔‘‘ ایک اور موقع پر آنحضورؐ نے ارشاد فرمایا ’’قربانی دو اور خوشی خوشی دو، جو شخص جانورکا منہ قبلے کی طرف کرکے قربانی دے، اس قربانی کے تمام بال اور خون کے سب قطرے قیامت کے دن تک محفوظ رکھے جائیں گے۔‘‘

اسلام میں قربانی کو عظیم عمل قرار دیے جانے کے بعد یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ انسان اللہ کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار رہے، چاہے وہ وقت کی قربانی ہو، یا مال کی قربانی ہو، جانورکی قربانی ہو یا جان کی قربانی، قربانی کا عمل اللہ تعالیٰ کو بے حد پسند ہے، اگر اللہ کے لیے انسان کوکسی پریشانی سے گزرنا پڑے، اپنا وقت قربان کرنا پڑے، اپنا مال خرچ کرنا پڑے تو اسے یہ قربانی خوشی خوشی دینی چاہیے اور اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ رب العزت نے اسے قربانی کی توفیق عطا فرمائی۔ یقینا اللہ رب العزت انسان کو ہر اس قربانی کے عوض جو اللہ کے لیے ہوگی، اجر عظیم عطا فرمائے گا۔

عیدالاضحی تمام مسلمانوں کے لیے خوشی و مسرت اور ذخیرۂ آخرت جمع کرنے کا شان دار موقع ہے، اس لیے تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ عید کی نماز ادا کریں اور جو لوگ صاحب استطاعت ہیں وہ قربانی کریں۔ قربانی کیے ہوئے جانوروں کا گوشت وہ خود بھی کھائیں، اپنے اعزا و اقارب اور احباب کو بھی کھلائیں۔ ساتھ ہی اس موقع پر غریبوں کا خیال رکھیں۔ کیونکہ یہ عید ان کے لیے بھی ہے۔

اگر استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے وہ قربانی کرنے یا قربانی کے گوشت سے محروم رہ جائیں گے، تو انھیں اس بات کا احساس ہوسکتا ہے، چنانچہ ایسے لوگوں کا پورا دھیان رکھنا چاہیے جو اپنی غربت کی وجہ سے قربانی نہ کرسکیں۔ جو لوگ قربانی کریں وہ اس بات کو ضرور ملحوظ رکھیں کہ کہیں ان کے پڑوسی یا احباب و رشتے دار قربانی نہ کرنے کی وجہ سے قربانی کے گوشت سے محروم تو نہیں رہ جائیں گے، اگر کہیں اس طرح کی صورت حال پائی جائے تو اس کا پورا خیال رکھیں۔ ایسا کرنے سے محلہ اور بستی کے سبھی لوگ یکساں طور پر عید منا سکیں گے۔

شہروں میں صاحب حیثیت لوگوں کی بڑی تعداد ہوتی ہے، اگر وہ کوئی ایسا نظم کرنا چاہیں کہ کم ازکم عید کے دن ہر جگہ کے مسلمان قربانی کے گوشت سے محظوظ ہوسکیں تو ایسا کیا جاسکتا ہے۔

عید قرباں کے موقع پر اس بات کا بھی پورا خیال رکھنا چاہیے کہ قربانی کے گوشت کی ناقدری نہ ہو، ان مقامات پر جہاں صاحب ثروت لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، وہاں عام طور سے گوشت کی ناقدری ہوتی دکھائی دیتی ہے، کیونکہ ایک شخص بڑے اور پورے جانورکی قربانی کرتا ہے بلکہ بعض توکئی کئی جانوروں کی قربانی کرتے ہیں، ایسے میں ان کے لیے گوشت کی قدر دانی مشکل ہوجاتی ہے، پڑوسیوں، رشتے داروں اور محلہ داروں کے یہاں گوشت بھیجا جاتا ہے تو وہ لینے کے لیے تیار نہیں ہوتے کیونکہ ان کے یہاں خود یہی کیفیت ہوتی ہے، ایسے حالات میں بہتر یہ ہے کہ وہ لوگ جو کئی کئی جانوروں کی قربانی کرتے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ قربانی کے جانوروں کا گوشت یا قربانی کے جانور ایسے محلوں، گاؤں یا علاقوں میں پہنچائیں جہاں غربت زیادہ ہوتی ہے اور عام طور سے لوگ قربانی نہیں کرپاتے، اگر پاکستان میں ایسے علاقوں کو تلاش کیا جائے تو اس کی ایک طویل فہرست تیار ہوسکتی ہے۔

اگر ایک سے زائد جانوروں کی قربانی کرنے والے لوگ ان علاقوں میں پہنچا دیں تو انھیں قربانی کا ثواب تو ملے گا ہی، ساتھ ہی ان کے قربانی کے جانوروں کا گوشت بھی ضایع نہ ہوگا اور غریب و نادار لوگ اس سے فائدہ اٹھاسکیں گے۔ بعض لوگ ایسے مقامات یا آبادیوں میں رہتے ہیں جہاں قربانی کے لیے کوئی اطمینان بخش جگہ نہیں ہے۔ وہ قربانی کرنے میں خطرہ محسوس کرتے ہیں اور اس خطرے کی وجہ سے قربانی نہیں کرتے انھیں چاہیے کہ وہ اس خطرے کی وجہ سے قربانی کو موقوف نہ کریں بلکہ وہ ان علاقوں میں قربانی کا انتظام کرسکتے ہیں جہاں کسی طرح کا کوئی خطرہ نہیں ہے اور جہاں ان کے قربانی کے جانوروں کا گوشت قدر کے ساتھ مسلمان بھائی استعمال کرسکیں۔

عید الاضحی کے موقع پر صفائی ستھرائی پر بھی خاص دھیان دینے کی ضرورت ہے، گوشت، ہڈیاں یا دیگر آلات راستوں، نالوں اور سڑکوں پر نہ پھینکیں۔ عید کے دن چونکہ بعض علاقوں میں گوشت کی بہتات ہوتی ہے، اس لیے ذرا سی لاپرواہی سے گندگی کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے، جس کا ایک نقصان تو یہ ہے کہ اس سے طرح طرح کی بیماریاں و تعفن پھیلنے کا اندیشہ رہتا ہے، دوسرا ان لوگوں کے لیے جو غیر مسلم ہیں یہ صورت حال باعث تکلیف ہوسکتی ہے، خاص طور پر ہمارے ملک میں تقریباً ہر جگہ ملی جلی آبادی پائی جاتی ہے۔ اس لیے برادران وطن کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے، یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام میں غیر مسلموں کے حقوق بھی بیان کیے گئے ہیں، عید قرباں پر صفائی ستھرائی نہ رکھنے کا ایک اور نقصان یہ بھی ہے کہ اس صورت حال میں غیر مسلم قوموں میں اچھا پیغام نہیں جاتا ہے، مسلمانوں کی شبیہ خراب ہوتی ہے اور دوسرے لوگ مسلمانوں کو گندی قوم خیال کرنے لگتے ہیں، جب کہ اسلام میں صفائی ستھرائی اور پاکی کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔
ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

#Islam #Muslims #Qurbani

Popular Books