معجزات کے باب میں اصل فیصلہ کن سوال صرف یہ ہے کہ آیا اللہ تعالیٰ نظام کائنات کو ایک قانون پر چلا دینے کے بعد معطل ہوچکا ہے اور اب اس چلتے ہوئے نظام میں کبھی کسی موقع پر مداخلت نہیں کرسکتا؟
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم 0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قَالَ اِنۡ كُنۡتَ جِئۡتَ بِاٰيَةٍ فَاۡتِ بِهَاۤ اِنۡ كُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِيۡنَ ۞ فَاَلۡقٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِىَ ثُعۡبَانٌ مُّبِيۡنٌ ۞ وَّنَزَعَ يَدَهٗ فَاِذَا هِىَ بَيۡضَآءُ لِلنّٰظِرِيۡنَ ۞
(القرآن - سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 106-108)
ترجمہ:
فرعون نے کہا "اگر تو کوئی نشانی لایا ہے اور اپنے دعوے میں سچا ہے تو اسے پیش کر" ۞ موسیٰؑ نے اپنا عصا پھینکا اور یکا یک وہ ایک جیتا جاگتا اژدہا تھا ۞ اس نے اپنی جیب سے ہاتھ نکالا اور سب دیکھنے والوں کے سامنے وہ چمک رہا تھا۞ ؏
نشانیاں حضرت موسیٰ ؑ کو اس امر کے ثبوت میں دی گئی تھیں کہ وہ اس خدا کے نمائندے ہیں جو کائنات کا خالق اور فرماں روا ہے۔
پیغمبروں نے جب کبھی اپنے آپ کو فرستادہ رب العالمٰین کی حیثیت سے پیش کیا تو لوگوں نے ان سے یہی مطالبہ کیا کہ اگر تم واقعی رب العالمٰین کے نمائندے ہو تو تمہارے ہاتھوں سے کوئی ایسا واقعہ ظہور میں آنا چاہیے جو قوانین فطرت کی عام روش سے ہٹا ہوا ہو اور جس سے صاف ظاہر ہو رہا ہو کہ رب العالمٰین نے تمہاری صداقت ثابت کرنے کے لیے اپنی براہ راست مداخلت سے یہ واقعہ نشانی کے طور پر صادر کیا ہے۔
اسی مطالبہ کے جواب میں انبیاء نے وہ نشانیاں دکھائی ہیں جس کو قرآن کی اصطلاح میں ”آیات“ اور متکلمین کی اصطلاح میں ”معجزات“ کہا جاتا ہے۔
ایسے نشانات یا معجزات کو جو لوگ قوانین فطرت کے تحت صادر ہونے والے عام واققعات قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں وہ درحقیقت کتاب اللہ کو ماننے اور نہ ماننے کے درمیان ایک ایسا موقف اختیار کرتے ہیں جو کسی طرح معقول نہیں سمجھا جاسکتا۔
اس لیے کہ قرآن جس جگہ صریح طور پر خارق عادت واقعہ کا ذکر کر رہا ہو وہاں سیاق وسباق کے بالکل خلاف ایک عادی واقع بنانے کی جدوجہد محض ایک بھونڈی سخن سازی ہے جس کی ضرورت صرف ان لوگوں کو پیش آتی ہے جو ایک طرف تو کسی ایسی کتاب پر ایمان نہیں لانا چاہتے جو خارق عادت واقعات کا ذکر کرتی ہو اور دوسری طرف آبائی مذہب کے پیدائشی معتقد ہونے کی وجہ سے اس کتاب کا انکار بھی نہیں کرنا چاہتے جو فی الواقع خارق عادت واقعات کا ذکر کرتی ہے۔
معجزات کے باب میں اصل فیصلہ کن سوال صرف یہ ہے کہ آیا اللہ تعالیٰ نظام کائنات کو ایک قانون پر چلا دینے کے بعد معطل ہوچکا ہے اور اب اس چلتے ہوئے نظام میں کبھی کسی موقع پر مداخلت نہیں کرسکتا ؟
یا وہ بالفعل اپنی سلطنت کو زمام تدبیر و انتظام اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے اور ہر آن اس کے احکام اس سلطنت میں نافذ ہوتے ہیں اور اس کو ہر وقت اختیار حاصل ہے کہ اشیا کی شکلوں اور واقعات کی عادی رفتار میں جزئی طور پر یا کلّی طور پر جیسا چاہے اور جب چاہے تغیر کر دے ؟ جو لوگ اس سوال کے جواب میں پہلی بات کے قائل ہیں ان کے لیے معجزات کو تسلیم کرنا غیرممکن ہے، کیونکہ معجزہ نہ ان کے تصّور خدا سے میل کھاتا ہے اور نہ تصور کائنات سے۔ لیکن ایسے لوگوں کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ قرآن کی تفسیر و تشریح کرنے کی بجائے اس کا صاف صاف انکار کردیں کیونکہ قرآن نے تو اپنا زور بیان ہی خدا کے مقدم الذکر تصور کا ابطال اور موخر الذکر تصور کا اثبات کرنے پر صرف کیا ہے۔ بخلاف اس کے جو شخص قرآن کے دلائل سے مطمئن ہو کر دوسرے تصور کو قبول کرلے اس کے لیے معجزے کو سمجھنا اور تسلیم کرنا کچھ مشکل نہیں رہتا۔ ظاہر ہے کہ جب آپ کا عقیدہ ہی یہ ہوگا کہ اژد ہے جس طرح پیدا ہوا کرتے ہیں اسی طرح وہ پیدا ہوسکتے ہیں، اس کے سوا کسی دوسرے ڈھنگ پر کوئی اژدہا پیدا کردینا خدا کی قدرت سے باہر ہے تو آپ مجبور ہیں ایسے بیان کو قطعی طور پر جھٹلا دیں جو آپ کو خبر دے رہا ہو کہ ایک لاٹھی اژد ہے میں تبدیل ہوئی اور پھر اژد ہے سے لاٹھی بن گئی۔ لیکن اس کے برعکس اگر آپ کا عقیدہ یہ ہو کہ بےجان مادے میں خدا کے حکم سے زندگی پیدا ہوتی ہے اور خدا جس مادے کو جیسی چاہے زندگی عطا کرسکتا ہے، اس کے لیے خدا کے حکم سے لاٹھی کا اژدہا بننا اتنا ہی غیر عجیب واقعہ ہے جتنا اسی خدا کے حکم سے انڈے کے اندر بھرے ہوئے چند بےجان مادوں کا اژدہا بن جانا غیر عجیب ہے۔ مجرد یہ فرق کہ ایک واقعہ ہمیشہ پیش آتا رہتا ہے اور دوسرا واقعہ صرف تین مرتبہ پیش آیا، ایک کو غیر عجیب اور دوسرے کو عجیب بنا دینے کے لیے کافی نہیں ہے۔
معجزات کیوں ختم کر دئئے
وَمَا مَنَعَنَاۤ اَنۡ نُّرۡسِلَ بِالۡاٰيٰتِ اِلَّاۤ اَنۡ كَذَّبَ بِهَا الۡاَوَّلُوۡنَؕ وَاٰتَيۡنَا ثَمُوۡدَ النَّاقَةَ مُبۡصِرَةً فَظَلَمُوۡا بِهَاؕ وَمَا نُرۡسِلُ بِالۡاٰيٰتِ اِلَّا تَخۡوِيۡفًا ۞
(سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 59)
ترجمہ:
اور ہم کو نشانیاں بھیجنے سے نہیں روکا مگر اس بات نے کہ اِن سے پہلے کے لوگ اُن کو جُھٹلا چکے ہیں۔ (چنانچہ دیکھ لو)ثمود کو ہم علانیہ اُونٹنی لا کر دی اور اُنہوں نے اُس پر ظلم کیا۔ ہم نشانیاں اسی لیے تو بھیجتے ہیں کہ لوگ انہیں دیکھ کر ڈریں۔
یعنی محسوس معجزات جو دلیل نبوت کی حیثیت سے پیش کیے جائیں، جن کا مطالبہ کفار قریش بار بار نبی ﷺ سے کیا کرتے تھے۔
مدعا یہ ہے کہ *یسا معجزہ دیکھ لینے کے بعد جب لوگ اس کی تکذیب کرتے ہیں، تو پھر لا محالہ ان پر نزول عذاب واجب ہوجاتا ہے، اور پھر ایسی قوم کو تباہ کیے بغیر نہیں چھوڑا جاتا*
پچھلی تا ریخ اس بات کی شاہد ہے کہ متعدد قوموں نے صریح معجزے دیکھ لینے کے بعد بھی ان کو جھٹلایا اور پھر تباہ کردی گئیں۔ اب یہ سراسر اللہ کی رحمت ہے کہ وہ ایسا کوئی معجزہ نہیں بھیج رہا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ تمہیں سمجھنے اور سنبھلنے کے لیے مہلت دے رہا ہے۔ مگر تم ایسے بیوقوف لوگ ہو کہ معجزے کا مطالبہ کر کر کے ثمود کے سے انجام سے دوچار ہونا چاہتے ہو۔
یعنی معجزے دکھانے سے مقصود تماشا دکھانا تو کبھی نہیں رہا ہے۔ اس سے مقصود تو ہمیشہ یہی رہا ہے کہ لوگ انہیں دیکھ کر خبردار ہوجائیں، انہیں معلوم ہوجائے کہ نبی کی پشت پر قادر مطلق کی بےپناہ طاقت ہے، اور وہ جان لیں کہ اس کی نافرمانی کا انجام کیا ہوسکتا ہے۔
(ماخوز از تفہیم القرآن )
فرمائشی معجزات نہ دکھلانے کی حکمت:
الله فرمائشی معجزات دکھلانے سے عاجز نہیں۔ لیکن جن قوانین حکمت و رحمت پر نظام تکوین کی بنیاد ہے، تم میں سے اکثر ان کے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ان قوانین کا اقتضا یہ ہی ہے کہ تمام فرمائشی معجزات نہ دکھلائے جائیں- الله کی حکمتیں ہیں جو فرمائشی نشانات نہ دکھلائے جانے میں مرعی ہیں۔ انسان جنس حیوان میں "بااختیار اور ترقی کن” حیوان ہے اسی کسب و اختیار اور ترقی کن عقل و تمیز کی موجودگی نے اس کے نظام تکوینی اور قانون حیات کو دوسرے تمام حیوانات سے ایسا اعلیٰ اور ممتاز بنا دیا ہے۔ وہ برخلاف باقی حیوانات کے دیکھنے سننے اور پوچھنےسے نئی نئی معلومات حاصل کرتا اور قوت فکریہ سے ان کو ترتیب دےکر حیات جدید کی طرف ترقی کرتا رہتا ہے وہ نیک و بد میں تمیز کرنے، نافع و ضار کے پہنچانے، آغاز و انجام سمجھنے پر قادر اور کسی عمل کے کرنے یا چھوڑنے میں فی الجملہ آزاد ہے۔ اسی لئے اس کو خدا کی جانب سے ایسے نشانات دکھلائے جاتے ہیں جن میں غور و فکر کرنے کا موقع مل سکے اور فکر و کسب کی فطری آزادی کو سلب کرنے والے نہ ہوں۔ اور اگر وہ خدا کے دیے ہوئے قوائے عقلیہ سے ٹھیک طور پر ان میں غور کرے تو اسے حق و باطل اور نیک و بد کی تمیز کرنے میں کچھ دقت نہ ہو۔ پس ایسے فرمائشی نشانات و معجزات کی درخواست کرنا جو بہمہ وجوہ ایمان لانے پر مجبور کر دیں، انسان کی فطری آزادی اور اس کے نظام ترکیبی کو تباہ کرنے بلکہ انسان کو عام حیوانات کی صف میں اتار لانے کا مرادف ہے۔ اور اگر فرمائشی نشان بہمہ وجوہ مجبور کن نہ ہوں تو ان کا دکھلانا بیکار ہے۔ کیونکہ ان میں بھی وہی غیرناشی عن دلیل شکوک و شبہات پیدا کر لئے-
مزید تفصیل 》》》
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*Don't Discard Quran قرآن کو نظر انداز مت کریں*
*قرآن ہدایت کی واحد، آخری ، مکمل ، محفوظ کتاب اللہ ہے ، بلاشک و شبہ* جبکہ باقی تمام کتابیں انسانی تحریریں، جو مکمل ہونے، غلطی، شک و شبہ سے مبرا ہونے کا دعوی نہیں کر سکتیں. مگر پھر بھی مسلمان قرآن کو نظر انداز کرتے ہیں:
*"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" ( الفرقان 25 آیت: 30)*
*Quran is the Only Last, Complete, Protected Divine Book of Guidance, without any doubt*, all other books are human efforts, cannot claim to be complete, free from error and doubt, yet Muslims have discarded Quran:
*"The Messenger will say, Lord, my people did indeed discard the Quran" (Quran 25:30)*
Explore ....
https://Quran1book.blogspot.com
https://Quransubjects.blogspot.com
#Quran