عقیدہ آخر ت، ایمان کے 6 بنیادی اراکان میں ایک اہم جزو ہے۔
اللہ کا فرمان ہے کہ:
اسی کی طرف تم سب کو پلٹ کا جانا ہے، یہ اللہ کا پکا وعدہ ہے۔ بے شک پیدائش کی ابتداء وہی کرتا ہے، پھر وہی دوبارہ پیدا کرے گا، تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کیے ان کو پورے انصاف کے ساتھ جزا دے، اور جنہوں نے کُفر کا طریقہ اختیار کیا وہ کھولتا ہوا پانی پئیں اور دردناک سزا بُھگتیں اُس انکارِحق کی پاداش میں جو وہ کرتے رہے۔ (قرآن 10:4)
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِلَيۡهِ مَرۡجِعُكُمۡ جَمِيۡعًا ؕ وَعۡدَ اللّٰهِ حَقًّا ؕ اِنَّهٗ يَـبۡدَؤُا الۡخَـلۡقَ ثُمَّ يُعِيۡدُهٗ لِيَجۡزِىَ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ بِالۡقِسۡطِؕ وَالَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لَهُمۡ شَرَابٌ مِّنۡ حَمِيۡمٍ وَّعَذَابٌ اَلِيۡمٌۢ بِمَا كَانُوۡا يَكۡفُرُوۡنَ ۞ هُوَ الَّذِىۡ جَعَلَ الشَّمۡسَ ضِيَآءً وَّالۡقَمَرَ نُوۡرًا وَّقَدَّرَهٗ مَنَازِلَ لِتَعۡلَمُوۡا عَدَدَ السِّنِيۡنَ وَالۡحِسَابَؕ مَا خَلَقَ اللّٰهُ ذٰلِكَ اِلَّا بِالۡحَـقِّۚ يُفَصِّلُ الۡاٰيٰتِ لِقَوۡمٍ يَّعۡلَمُوۡنَ ۞ اِنَّ فِى اخۡتِلَافِ الَّيۡلِ وَالنَّهَارِ وَمَا خَلَقَ اللّٰهُ فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ لَاٰيٰتٍ لِّـقَوۡمٍ يَّتَّقُوۡنَ ۞ اِنَّ الَّذِيۡنَ لَا يَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا وَرَضُوۡا بِالۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَاطۡمَاَنُّوۡا بِهَا وَالَّذِيۡنَ هُمۡ عَنۡ اٰيٰتِنَا غٰفِلُوۡنَۙ ۞ اُولٰٓئِكَ مَاۡوٰٮهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوۡا يَكۡسِبُوۡنَ ۞ اِنَّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ يَهۡدِيۡهِمۡ رَبُّهُمۡ بِاِيۡمَانِهِمۡۚ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهِمُ الۡاَنۡهٰرُ فِىۡ جَنّٰتِ النَّعِيۡمِ ۞ دَعۡوٰٮهُمۡ فِيۡهَا سُبۡحٰنَكَ اللّٰهُمَّ وَ تَحِيَّـتُهُمۡ فِيۡهَا سَلٰمٌۚ وَاٰخِرُ دَعۡوٰٮهُمۡ اَنِ الۡحَمۡدُ لِلّٰهِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ۞ وَلَوۡ يُعَجِّلُ اللّٰهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسۡتِعۡجَالَهُمۡ بِالۡخَيۡرِ لَـقُضِىَ اِلَيۡهِمۡ اَجَلُهُمۡؕ فَنَذَرُ الَّذِيۡنَ لَا يَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا فِىۡ طُغۡيَانِهِمۡ يَعۡمَهُوۡنَ ۞
(القرآن - سورۃ نمبر 10 يونس ،آیت نمبر 4-11)
ترجمہ:
اسی کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے، یہ اللہ کا پکا وعدہ ہے بے شک پیدائش کی ابتدا وہی کرتا ہے، پھر وہی دوبارہ پیدا کرے گا، تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ان کو پورے انصاف کے ساتھ جزا دے، اور جنہوں نے کفر کا طریقہ اختیار کیا وہ کھولتا ہوا پانی پییں اور دردناک سزا بھگتیں اُس انکار حق کی پاداش میں جو وہ کرتے رہے ۞
وہی ہے جس نے سُورج کو اجیالا بنایا اور چاند کو چمک دی اور چاند کے گھٹنے بڑھنے کی منزلیں ٹھیک ٹھیک مقرر کر دیں تاکہ تم اُس سے برسوں اور تاریخوں کے حساب معلوم کرو اللہ نے یہ سب کچھ (کھیل کے طور پر نہیں بلکہ) با مقصد ہی بنایا ہے وہ اپنی نشانیوں کو کھول کھول کر پیش کر رہا ہے اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں ۞
یقیناً رات اور دن کے الٹ پھیر میں اور ہر اُس چیز میں جو اللہ نے زمین اور آسمانوں میں پیدا کی ہے، نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو (غلط بینی و غلط روی سے) بچنا چاہتے ہیں ۞ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی ہی پر راضی اور مطمئن ہو گئے ہیں، اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں ۞ اُن کا آخری ٹھکانہ جہنم ہو گا اُن برائیوں کی پاداش میں جن کا اکتساب وہ (اپنے اس غلط عقیدے اور غلط طرز عمل کی وجہ سے) کرتے رہے ۞ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جو لوگ ایمان لائے (یعنی جنہوں نے اُن صداقتوں کو قبول کر لیا جو اس کتاب میں پیش کی گئی ہیں) اور نیک اعمال کرتے رہے انہیں اُن کا رب اُن کے ایمان کی وجہ سے سیدھی راہ چلائے گا، نعمت بھری جنتوں میں ان کے نیچے نہریں بہیں گی ۞ وہاں ان کی صدا یہ ہوگی کہ“پاک ہے تو اے خدا، " اُن کی دعا یہ ہوگی کہ“سلامتی ہو " اور ان کی ہر بات کا خاتمہ اس پر ہوگا کہ“ساری تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے "۞ ؏
اگر کہیں اللہ لوگوں کے ساتھ برا معاملہ کرنے میں بھی اتنی ہی جلدی کرتا جتنی وہ دنیا کی بھلائی مانگنے میں جلدی کرتے ہیں تو ان کی مہلت عمل کبھی کی ختم کر دی گئی ہوتی (مگر ہمارا یہ طریقہ نہیں ہے) اس لیے ہم اُن لوگوں کو جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اُن کی سرکشی میں بھٹکنے کے لیے چھُوٹ دے دیتے ہیں ۞
(القرآن - سورۃ نمبر 10 يونس ،آیت نمبر 4-11)
ان آیات میں عقیدہ آخرت پیش کرنے کے ساتھ اس کی تین دلیلیں ٹھیک ٹھیک منطقی ترتیب کے ساتھ دی گئی ہیں :
#1 دوسری زندگی ممکن ہے کیونکہ پہلی زندگی کا امکان واقعہ کی صورت میں موجود ہے۔
#2 دوسری زندگی کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ زندگی میں انسان اپنی اخلاقی ذمہ داری کو صحیح یا غلط طور پر جس طرح ادا کرتا ہے اور اس سے سزا اور جزا کا جو استحقاق پیدا ہوتا ہے اس کی بنا پر عقل اور انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ایک اور زندگی ہو جس میں ہر شخص اپنے اخلاقی رویہ کا وہ نتیجہ دیکھے جس کا وہ مستحق ہے۔
#3 جب عقل و انصاف کی رو سے دوسری زندگی کی ضرورت ہے تو یہ ضرورت یقینا پوری کی جائے گی، کیونکہ انسان اور کائنات کا خالق حکیم ہے اور حکیم سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ حکمت و انصاف جس چیز کے متقاضی ہوں اسے وہ وجود میں لانے سے باز رہ جائے۔
غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ زندگی بعد موت کو استدلال سے ثابت کرنے کے لیے یہی تین دلیلیں ممکن ہیں اور یہی کافی بھی ہیں۔ ان دلیلوں کے بعد اگر کسی چیز کی کسر باقی رہ جاتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ انسان کو آنکھوں سے دکھا دیا جائے کہ جو چیز ممکن ہے جس کے وجود میں آنے کی ضرورت بھی ہے، اور جس کو وجود میں لانا خدا کی حکمت کا تقاضا بھی ہے، وہ دیکھ یہ تیرے سامنے موجود ہے۔ لیکن یہ کسر بہرحال موجودہ دنیوی زندگی میں پوری نہیں کی جائے گی، کیونکہ *دیکھ کر ایمان لانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔*
اللہ تعالیٰ انسان کا جو امتحان لینا چاہتا ہے وہ تو ہے ہی یہ کہ وہ حس اور مشاہدے سے بالاتر حقیقتوں کو خالص نظر و فکر اور استدلال صحیح کے ذریعہ سے مانتا ہے یا نہیں۔
اس سلسلہ میں ایک اور اہم مضمون بھی بیان فرما دیا گیا ہے جو گہری توجہ کا مستحق ہے۔ فرمایا کہ
*”اللہ کی نشانیوں کو کھول کھول کر پیش کر رہا ہے ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں“ اور ”اللہ کی پیدا کی ہوئی ہر چیز میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غلط بینی و غلط روی سے بچنا چاہتے ہیں“*
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نہایت حکیمانہ طریقے سے زندگی کے مظاہر میں ہر طرف وہ آثار پھیلا رکھے ہیں جو ان مظاہر کے پیچھے چھپی ہوئی حقیقتوں کی صاف صاف نشان دہی کر رہے ہیں۔ لیکن ان نشانات سے حقیقت تک صرف وہ لوگ رسائی حاصل کرسکتے ہیں جن کے اندر یہ دو صفات موجود ہیں
ایک یہ کہ وہ جاہلانہ تعصبات سے پاک ہو کر علم حاصل کرنے کے ان ذرائع سے کام لیں جو اللہ نے انسان کو دیے ہیں۔
دوسرے یہ کہ ان کے اندر خود یہ خواہش موجود ہو کہ غلطی سے بچیں اور صحیح راستہ اختیار کریں۔
............
*عقیدہ آخرت کی دلیل اور اہمیت*
*انسان کا انفرادی رویہ اور انسانی گروہوں کا اجتماعی رویہ کبھی اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک یہ شعور اور یہ یقین انسانی سیرت کی بنیاد میں پیوست نہ ہو کہ ہم کو خدا کے سامنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔*
https://flip.it/31Ro2B
دعوی یہ ہے کہ عقیدہ آخرت کے انکار کا لازمی اور قطعی نتیجہ جہنم ہے، اور دلیل ہے کہ اس عقیدے سے منکر یا خالی الذہن ہو کر انسان ان برائیوں کا اکتساب کرتا ہے جن کی سزا جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی۔
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّ الَّذِيۡنَ لَا يَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا وَرَضُوۡا بِالۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَاطۡمَاَنُّوۡا بِهَا وَالَّذِيۡنَ هُمۡ عَنۡ اٰيٰتِنَا غٰفِلُوۡنَۙ ۞ اُولٰٓئِكَ مَاۡوٰٮهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوۡا يَكۡسِبُوۡنَ ۞
ترجمہ:
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی ہی پر راضی اور مطمئن ہو گئے ہیں، اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں ۞ اُن کا آخری ٹھکانہ جہنم ہو گا اُن برائیوں کی پاداش میں جن کا اکتساب وہ (اپنے اس غلط عقیدے اور غلط طرز عمل کی وجہ سے) کرتے رہے ۞
(القرآن - سورۃ نمبر 10 يونس, آیت نمبر 7،8)
یہ ایک حقیقت ہے کہ اور ہزارہا سال کے انسانی رویے کا تجربہ اس پر شاہد ہے۔ جو لوگ خدا کے سامنے اپنے آپ کو ذمہ دار اور جواب دہ نہیں سمجھتے، جو اس بات کا کوئی اندیشہ نہیں رکھتے کہ انہیں آخرکار خدا کو اپنے پورے کارنامہ حیات کا حساب دینا ہے، جو اس مفروضے پر کام کرتے ہیں کہ زندگی بس یہی دنیا کی زندگی ہے، جن کے نزدیک کامیابی و ناکامی کا معیار صرف یہ ہے کہ اس دنیا میں آدمی نے کس قدر خوشحالی، آسائش، شہرت اور طاقت حاصل کی، اور جو اپنے انہی مادہ پرستانہ تخیلات کی بنا پر آیات الہٰی کو ناقابل توجہ سمجھتے ہیں، ان کی پوری زندگی غلط ہو کر رہ جاتی ہے۔ وہ دنیا میں شتر بےمہار بن کر رہتے ہیں، نہات برے اخلاق و اوصاف کا اکتساب کرنے میں، خدا کی زمین کو ظلم و فساد اور فسق و فجور سے بھر دیتے ہیں، اور اس بنا پر جہنم کے مستحق بن جاتے ہیں۔
یہ عقیدہ آخرت پر ایک اور نوعیت کی دلیل ہے۔
پہلی تین دلیلیں عقلی استدلال کے قبیل سے تھیں، اور یہ تجربی استدلال کے قبیل سے ہے۔ یہاں اسے صرف اشارۃ بیان کیا گیا ہے، مگر قرآن میں مختلف مواقع پر ہمیں اس کی تفصیل ملتی ہے۔
*اس استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کا انفرادی رویہ اور انسانی گروہوں کا اجتماعی رویہ کبھی اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک یہ شعور اور یہ یقین انسانی سیرت کی بنیاد میں پیوست نہ ہو کہ ہم کو خدا کے سامنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔*
اب غور طلب یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے ؟ کیا وجہ ہے کہ اس شعور و یقین کے غائب یا کمزور ہوتے ہی انسانی سیرت و کردار کی گاڑی برائی کی راہ پر چل پڑتی ہے۔ اگر عقیدہ آخرت حقیقت نفس الامری کے مطابق نہ ہو اور اس کا انکار حقیقت کے خلاف نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ اس اقرار و انکار کے نتائج ایک لزومی شان کے ساتھ مسلسل ہمارے تجربے میں آتے۔ ایک ہی چیز سے پیہم صحیح نتائج کا برآمد ہونا اور اس کے عدم سے نتائج کا ہمیشہ غلط ہوجانا اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ وہ چیز بجائے خود صحیح ہے۔
اس کے جواب میں بسا اوقات یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ بہت سے منکرین آخرت ایسے ہیں جن کا فلسفہ اخلاق اور دستور عمل سراسر دہریت و مادہ پرستی پر مبنی ہے پھر بھی وہ اچھی خاصی پاک سیرت رکھتے ہیں اور ان سے ظلم و فساد اور فسق و فجور کا ظہور نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ اپنے معاملات میں نیک اور خلق خدا کے خدمت گزار ہوتے ہیں۔ لیکن اس استدلال کی کمزوری بادنی تامل واضح ہوجاتی ہے۔ تمام مادہ پرستانہ لادینی فلسفوں اور نظامات فکر کی جانچ پڑتال کر کے دیکھ لیا جائے۔ کہیں ان اخلاقی خوبیوں اور عملی نیکیوں کے لیے کوئی بنیاد نہ ملے گی جن کا خراج تحسین ان ”نیکوکار“ دہریوں کو دیا جاتا ہے۔ کسی منطق سے یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ ان لادینی فلسفوں میں راست بازی، امانت، دیانت، وفائے عہد، عدل، رحم، فیاضی، ایثار، ہمدردی، ضبط نفس، عفت، حق شناسی، اور ادائے حقوق کے لیے محرکات موجود ہیں۔ خدا اور آخرت کو نظر انداز کردینے کے بعد اخلاق کے لیے اگر کوئی قابل عمل نظام بن سکتا ہے تو وہ صرف افادیت (utilitarianism) کی بنیادوں پر بن سکتا ہے۔
باقی تمام اخلاقی فلسفے محض فرضی اور کتابی ہیں نہ کہ عملی۔ اور افادیت جو اخلاق پیدا کرتی ہے اسے خواہ کتنی ہی وسعت دی جائے، بہرحال وہ اس سے آگے نہیں جاتا کہ آدمی وہ کام کرے جس کا کوئی فائدہ اس دنیا میں اس کی ذات کی طرف، یا اس معاشرے کی طرف جس سے وہ تعلق رکھتا ہے، پلٹ کر آنے کی توقع ہو۔ یہ وہ چیز ہے جو فائدے کی امید اور نقصان کے اندیشے کی بنا پر انسان سے سچ اور جھوٹ، امانت اور خیانت، ایمانداری اور بےایمانی، وفا اور غدر، انصاف اور ظلم، غرض ہر نیکی اور اس کی ضد کا حسب موقع ارتکاب کرا سکتی ہے۔ ان اخلاقیات کا بہترین نمونہ موجودہ زمانہ کی انگریز قوم ہے جس کو اکثر اس امر کی مثال میں پیش کیا جاتا ہے کہ مادہ پرستانہ نظریہ حیات رکھنے اور آخرت کے بہترین تصور سے خالی ہونے کے باوجود اس قوم کے افراد بالعموم دوسروں سے زیادہ سچے، کھرے، دیانت دار، عہد کے پابند، انصاف پسند اور معاملات میں قابل اعتماد ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ افادی اخلاقیات کی ناپائیداری کا سب سے زیادہ نمایاں عملی ثبوت ہم کو اسی قوم کے کردار میں ملتا ہے۔ اگر فی الواقع انگریزوں کی سچائی، انصاف پسندی، راستبازی اور عہد کی پابندی اس یقین و اذعان پر مبنی ہوتی کہ یہ صفات بجائے خود مستقل اخلاقی خوبیاں ہیں تو آخر یہ کس طرح ممکن تھا کہ ایک ایک انگریز تو اپنے شخصی کردار میں ان کا حامل ہوتا مگر ساری قوم مل کر جن لوگوں کو اپنا نمائندہ اور اپنے اجتماعی امور کا سربراہ کار بناتی ہے وہ بڑے پیمانے پر اس کی سلطنت اور اس کے بین الاقوامی معاملات کے چلانے میں علانیہ جھوٹ، بدعہدی، ظلم، بےانصافی اور بددیانتی سے کام لیتے اور پوری قوم کا اعتماد ان کو حاصل رہتا ؟
*کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ یہ لوگ مستقل اخلاقی قدروں کے قائل نہیں ہیں بلکہ دنیوی فائدے اور نقصان کے لحاظ سے بیک وقت دو متضاد اخلاقی رویے اختیار کرتے ہیں اور کرسکتے ہیں ؟*
تاہم اگر کوئی منکر خدا و آخرت فی الواقع دنیا میں ایسا موجود ہے جو مستقل طور پر بعض نیکیوں کا پابند اور بعض بدیوں سے مجتنب ہے تو درحقیقت اس کی یہ نیکی اور پرہیزگاری اس کے مادہ پرستانہ نظریہ حیات کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ان مذہبی اثرات کا نتیجہ ہے جو غیر شعوری طور پر اس کے نفس میں متمکن ہیں۔ اس کا اخلاقی سرمایہ مذہب سے چرایا ہوا ہے اور اس کو وہ ناروا طریقے سے لامذہبی میں استعمال کر رہا ہے۔ کیونکہ وہ اپنی لامذہبی و مادہ پرستی کے خزانے میں اس سرمائے کے ماخذ کی نشان دہی ہرگز نہیں کرسکتا۔
(تفہیم القرآن)
قرآن مضامین : https://flip.it/31Ro2B
.........
اگر عقیدہ آخرت پر مکمل ایمان ہو تو پھر لوگ برے کام کرنے سے پہلے سوچیں کہ جواب دہی ہو گی ۔۔
اس عقیدہ آخرت کو ہمارے مذہبی پیشواووں نے نظریہ بِخشش سے مکس کرکے بے اثر کر دیا ہے ۔۔ قرآن بالکل واضح ہے
۔۔۔۔۔۔۔
نجات، بخشش، ایمان اور اعمال – مغالطے
Salvation, Faith, Works and Illusions
#Quran
......
🌹🌹🌹
🔰 *Quran Subjects* 🔰 *قرآن مضامین* 🔰
*"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25 آیت: 30]*
*کیا یہ لوگ قرآن پر تدبر ّنہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل پڑچکے ہیں[47:24]*
*قرآن کے پیغام کوپھیلانا "جہاد کبیرہ" ہے(25:52)*
🤷🏻♂️
*English*- https://QuranSubjects.wordpress.com
*Urdu*- https://Quransubjects.blogspot.com
https://flip.it/6zSSlW
The Last, lost Book: https://Quran1book.blogspot.com
#Quran #Islam #Muslims #Faith #Resurrection