Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

شرم و (ستر) انسانیت اور حیوانیت میں فرق ‏


انسان کے اندر شرم و حیا کا جذبہ ایک فطری جذبہ ہے اور اس کا اوّلین مظہر وہ شرم ہے جو اپنے جسم کے مخصوص حصّوں کو دوسروں کے سامنے کھو لنے میں آدمی کو فطرةً محسوس ہوتی ہے۔ 
قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ یہ شرم انسان کے اندر تہذیب کے ارتقاء سے مصنوعی طور پر پیدا نہیں ہوئی ہے اور نہ یہ اکتسابی چیز ہے، جیسا کہ شیطان کے بعض شاگردوں نے قیاس کیا ہے، بلکہ درحقیقت یہ وہ فطری چیز ہے جو اوّل روز سے انسان میں موجود تھی۔

فَوَسۡوَسَ لَهُمَا الشَّيۡطٰنُ لِيُبۡدِىَ لَهُمَا مَا وٗرِىَ عَنۡهُمَا مِنۡ سَوۡاٰتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهٰٮكُمَا رَبُّكُمَا عَنۡ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّاۤ اَنۡ تَكُوۡنَا مَلَـكَيۡنِ اَوۡ تَكُوۡنَا مِنَ الۡخٰلِدِيۡنَ ۞ وَقَاسَمَهُمَاۤ اِنِّىۡ لَـكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِيۡنَۙ ۞ فَدَلّٰٮهُمَا بِغُرُوۡرٍ‌ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتۡ لَهُمَا سَوۡءٰتُهُمَا وَطَفِقَا يَخۡصِفٰنِ عَلَيۡهِمَا مِنۡ وَّرَقِ الۡجَـنَّةِ‌ ؕ وَنَادٰٮهُمَا رَبُّهُمَاۤ اَلَمۡ اَنۡهَكُمَا عَنۡ تِلۡكُمَا الشَّجَرَةِ وَاَقُلْ لَّـكُمَاۤ اِنَّ الشَّيۡطٰنَ لَـكُمَا عَدُوٌّ مُّبِيۡنٌ ۞ قَالَا رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا وَاِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَـنَا وَتَرۡحَمۡنَا لَـنَكُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِيۡنَ ۞
(القرآن - سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 20-23)
ترجمہ:
پھر شیطان نے اُن کو بہکایا تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ایک دوسرے سے چھپائی گئی تھیں ان کے سامنے کھول دے اس نے ان سے کہا، "تمہارے رب نے تمہیں جو اس درخت سے روکا ہے اس کی وجہ اِس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ، یا تمہیں ہمیشگی کی زندگی حاصل نہ ہو جائے ۞ اور اس نے قسم کھا کر ان سے کہا کہ میں تمہارا سچا خیر خواہ ہوں ۞ اس طرح دھو کا دے کر وہ ان دونوں کو رفتہ رفتہ اپنے ڈھب پرلے آیا آخرکار جب انہوں نے اس درخت کا مزا چکھا تو ان کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے تب ان کے رب نے انہیں پکارا، " کیا میں نے تمہیں اس درخت سے نہ روکا تھا اور نہ کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے؟" ۞ 
دونوں بول اٹھے، "اے رب، ہم نے اپنے اوپر ستم کیا، اب اگر تو نے ہم سے در گزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقیناً ہم تباہ ہو جائیں گے" ۞ (القرآن - سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 20-23)

1.شیطان کی پہلی چال جو اس نے انسان کو فطرت انسانی کی سیدھی راہ سے ہٹانے کے لیے چلی، یہ تھی کہ اس کے اس جذبہ شرم وحیا پر ضرب لگائے اور برہنگی کے راستے سے اس کے لیے فواحش کا دروازہ کھولے اور اس کو جنسی معاملات میں بد راہ کردے۔ 
باالفاظ دیگر اپنے حرف کے محاذ میں ضعیف ترین مقام جو اس نے حملہ کے لیے تلاش کیا وہ اس کی زندگی کا جنسی پہلو تھا، اور پہلی ضرب جو اس نے لگائی وہ اس محافظ فصپل پر لگائی جو شرم و حیا کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں رکھی تھی۔
*شیاطین ور ان کے شاگردوں کی یہ روش آج تک جوں کی توں قائم ہے۔”ترقی“ کا کوئی کام ان کے ہاں شروع نہیں ہوسکتا جب تک کہ عورت کو بےپردہ کرکے وہ بازار میں نہ لاکھڑا کریں اور اسے کسی نہ کسی طرح عریاں نہ کردیں۔*
2۔ یہ بھی انسان کی عین فطرت ہے کہ وہ برائی کی کھلی دعوت کو کم ہی قبول کرتا ہے۔ عموماً اسے جال میں پھانسنے کے لیے ہر داعی شر کو خیر خواہ کے بھیس ہی میں آنا پڑتا ہے۔
3۔ انسان کے اندر معالی امور مثلاً بشریت سے بالا تر مقام پر پہنچنے یا حیات جاوداں حاصل کرنے کی ایک فطری پیاس موجود ہے اور شیطان کو اسے فریب دینے میں پہلی کامیابی اسی ذریعہ سے ہوئی کہ اس نے انسان کی اس خواہش سے اپیل کیا۔ شیطان کا سب سے زیادہ چلتا ہوا حربہ یہ ہے کہ وہ آدمی کو بلندی پرلے جانے اور موجودہ حالت سے بہتر حالت پر پہنچا دینے کی امید دلاتا ہے اور پھر اس کے لیے وہ راستہ پیش کرتا ہے جو اسے الٹا پستی کی طرف لے جائے۔
4۔ عام طور پر یہ جو مشہور ہوگیا ہے کہ شیطان نے پہلے حضرت حوّا کو دام فریب میں گرفتار کیا اور پھر انہیں حضرت آدم علیہ السلالم کو پھانسنے کے لیے آلہ کار بنایا، قرآن اس کی تردید کرتا ہے۔ اس کا بیان یہ ہے کہ شیطان نے دونوں کو دھوکا دیا اور دونوں اس سے دھوکا کھا گئے۔ بظاہر یہ بہت چھوٹی سی بات معلوم ہوتی ہے، لیکن جن لوگوں کو معلوم ہے کہ حضرت حوّا کے متعلق اس مشہور روایت نے دنیا میں عورت کے اخلاقی، قانونی اور معاشرتی مرتبے کو گرانے میں کتنا زبردست حصہ لیا ہے وہی قرآن کے اس بیان کی حقیقی قدر و قیمت سمجھ سکتے ہیں۔
5۔ یہ گمان کرنے کے لیے کوئی معقول وجہ موجود نہیں ہے کہ شجر ممنوعہ کو مزہ چکھتے ہی آدم و حوّا کے ستر کھل جانا اس درخت کی کسی خاصیّت کا نتیجہ تھا۔ درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے سوا کسی اور چیز کا نتیجہ نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے ان کا ستر اپنے انتظام سے ڈھانکا تھا۔ جب انہوں نے حکم کی خلاف ورزی کی تو خدا کی حفاظت ان سے ہٹا لی گئی، ان کا پردہ کھول دیا گیا اور
*انہیں خود ان کے اپنے نفس کے حوالے کردیا گیا کہ اپنی پردہ پوشی کا انتظام خود کریں اگر اس کی ضرورت سمجھتے ہیں، اور اگر ضروت نہ سمجھیں یا اس کے لیے سعی نہ کریں تو خدا کو اس کی کچھ پروا نہیں کہ وہ کس حال میں پھرتے ہیں۔ یہ گویا ہمیشہ کے لیے اس حقیقت کا مظاہرہ تھا کہ انسان جب خدا کی نافرمانی کرے گا تو دیر یا سویر اس کا پردہ کھل کر رہے گا۔ اور یہ کہ انسان کے ساتھ خدا کی تائید و حمایت اسی وقت تک رہے گی جب تک وہ خدا کا مطیع فرمان رہے گا۔ طاعت کے حدود سے قدم باہر نکالنے کے بعد اسے خدا کی تائید ہرگز حاصل نہ ہوگی بلکہ اسے خود اس کے اپنے نفس کے حوالے کردیا جائے گا۔*
 یہ وہی مضمون ہے جو متعدد احادیث میں نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے اور اسی کے متعلق حضور ﷺ نے دعا فرمائی ہے کہ اللھم رحمتک ارجو افلا تکلنی الیٰ تفسی طرفة عین (خدایا ! میں تیری رحمت کا امیدوار ہوں پس مجھے ایک لمحہ کے لیے بھی میرے نفس کے حوالے نہ کر)۔

6۔ شیطان یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ انسان اس فضیلت کا مستحق نہیں ہے جو اس کے مقابلہ میں انسان کو دی گئی ہے۔ لیکن پہلے ہی معرکے میں اس نے شکست کھائی۔ اس میں شک نہیں کہ اس معر کے میں انسان اپنے رب کے امر کی فرمانبرداری کرنے میں پوری طرح کامیاب نہ ہوسکا اور اس کی یہ کمزوری ظاہر ہوگئی کہ وہ اپنے حریف کے فریب میں آکر اطاعت کی راہ سے ہٹ سکتا ہے۔ مگر بہر حال اس اولین مقابلہ میں یہ قطعی ثابت ہوگیا کہ *انسان اپنے اخلاقی مرتبہ میں ایک افضل مخلوق ہے*
 اولاً ، شیطان اپنی بڑائی کا خود مدعی تھا، اور انسان نے اس کا دعویٰ آپ نہیں کیا بلکہ بڑائی اسے دی گئی۔ ثانیاً ، شیطان نے خالص غرور تکبر کی بنا پر اللہ کے امر کی نافرمانی آپ اپنے اختیار سے کی اور انسان نے نافرمانی کو خود اختیار نہیں کیا بلکہ شیطان کے بہکانے سے وہ اس میں مبتلا ہوا۔ ثالثاً ، انسان نے شر کی کھلی دعوت کو قبول نہیں کیا بلکہ داعی شر کو داعی خیر بن کر اس کے سامنے آنا پڑا۔ وہ پستی کی طرف پستی کی طلب میں نہیں گیا بلکہ اس دھوکے میں مبتلا ہو کر گیا کہ یہ راستہ اسے بلندی کی طرف لے جائے گا۔ رابعاً ، شیطان کو تنبیہ کی گئی تو وہ اپنے قصور کا اعتراف کرنے اور بندگی کی طرف پلٹ آنے کے بجائے نافرمانی پر اور زیادہ جم گیا، اور جب انسان کو اس کے قصور پر متنبہ کیا گیا تو اس نے شیطان کی طرح سرکشی نہیں کی بلکہ اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی وہ نادم ہوا، اپنے قصور کا اعتراف کر کے بغاوت سے اطاعت کی طرف پلٹ آیا اور معافی مانگ کر اپنے رب کے دامن رحمت میں پناہ ڈھونڈنے لگا۔
7. اس طرح شیطان کی راہ اور وہ راہ جو انسان کے لائق ہے، دونوں ایک دوسرے سے بالکل متمیّر ہوگئیں۔ خالص شیطانی راہ یہ ہے کہ بندگی سے منہ موڑے، خدا کے مقابلہ میں سرکشی اختیار کرے، متنبہ کیے جانے باسجود پورے استکبار کے ساتھ اپنے باغیانہ طرز عمل پر اصراف کیے چلا جائے اور جو لوگ طاعت کی راہ چل رہے ہوں ان کو بھی بہکائے اور معصیّت کی راہ پر لانے کی کوشش کرے۔ بخلاف اس کے جو راہ انسان کے لائق ہے وہ یہ ہے کہ اوّل تو وہ شیطانی اغوا کی مزاحمت کرے اور اپنے اس دشمن کی چالوں کو سمجھنے اور ان سے بچنے کے لیے ہر وقت چوکنّا رہے، لیکن اگر کبھی اس کا قدم بندگی وطاعت کی راہ سے ہٹ بھی جائے تو اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی ندامت و شرمساری کے ساتھ فورًا اپنے رب کی طرف پلٹے اور اس قصور کی تلافی کر دے جو اس سے سرزد ہوگیا ہے۔ یہی وہ اصل سبق ہے جو اللہ تعالیٰ اس قصے سے یہاں دینا چاہتا ہے۔
*ذہن نشین یہ کرنا مقصود ہے کہ جس راہ پر تم لوگ جا رہے ہو یہ شیطان کی راہ ہے۔* یہ تمہارا خدائی ہدایت سے بےنیاز ہوگا شیاطینِ جن و انس کو اپنا ولی و سرپرست بنانا، اور یہ تمہارا پے در پے تنبیہات کے باوجود اپنی غلطی پر اصرار کیے چلے جانا، یہ دراصل خالص شیطانی رویّہ ہے۔ تم اپنے ازلی دشمن کے دام میں گرفتار ہوگئے ہو اور اس سے مکمل شکست کھا رہے ہو۔ اس کا انجام پھر وہی ہے جس سے شیطان خو دو چار ہونے والا ہے۔ اگر تم حقیقت میں خود اپنے دشمن نہیں ہوگئے ہو اور کچھ بھی ہوش تم میں باقی ہے تو سنبھلو اور وہ راہ اختیار کرو جو آکر کار تمہارے باپ اور تمہاری ماں آدم و حوّا نے اختیار کی تھی۔
 یہ شبہ نہ کیا جائے کہ حضرت آدم وحوا (علیہما السلام) کو جنت سے اتر جانے کا یہ حکم سزا کے طور پر دیا گیا تھا۔ قرآن میں متعدد مقامات پر اس کی تصریح کی گئی ہے کہ اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی اور انہیں معاف کردیا۔ لہٰذا اس حکم میں سزا کا کوئی پہلو نہیں ہے بلکہ یہ اس منشاء کی تکمیل ہے جس کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا تھا۔ 
(تشریح کے لیے ملا حظہ ہو سورة بقرہ، حاشیہ 48 و 53)۔
ماخوذ از تفہیم القران )
*لباس انسان کے لیے ایک مصنوعی چیز نہیں ہے بلکہ انسانی فطرت کا ایک اہم مطالبہ ہے*
 اللہ تعالیٰ نے انسان کے جسم پر حیوانات کی طرح کوئی پوشش پیدائشی طور پر نہیں رکھی بلکہ حیا اور شرم کا مادہ اس کی فطرت میں ودیعت کردیا. اللہ کا فرمان ہے ؛ 
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يٰبَنِىۡۤ اٰدَمَ قَدۡ اَنۡزَلۡنَا عَلَيۡكُمۡ لِبَاسًا يُّوَارِىۡ سَوۡاٰتِكُمۡ وَرِيۡشًا‌ ؕ وَلِبَاسُ التَّقۡوٰى ۙ ذٰ لِكَ خَيۡرٌ‌ ؕ ذٰ لِكَ مِنۡ اٰيٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمۡ يَذَّكَّرُوۡنَ ۞ يٰبَنِىۡۤ اٰدَمَ لَا يَفۡتِنَـنَّكُمُ الشَّيۡطٰنُ كَمَاۤ اَخۡرَجَ اَبَوَيۡكُمۡ مِّنَ الۡجَـنَّةِ يَنۡزِعُ عَنۡهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوۡءاٰتِهِمَا ؕ اِنَّهٗ يَرٰٮكُمۡ هُوَ وَقَبِيۡلُهٗ مِنۡ حَيۡثُ لَا تَرَوۡنَهُمۡ‌ ؕ اِنَّا جَعَلۡنَا الشَّيٰطِيۡنَ اَوۡلِيَآءَ لِلَّذِيۡنَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ ۞
(القرآن - سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 26-27)
ترجمہ:
اے اولاد آدم، ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لیے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو، اور بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، شاید کہ لوگ اس سے سبق لیں ۞ اے بنی آدم، ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں پھر اُسی طرح فتنے میں مبتلا کر دے جس طرح اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوایا تھا اور ا ن کے لباس ان پر سے اتروا دیے تھے تاکہ ان کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے سامنے کھولے وہ اور اس کے ساتھی تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے اِن شیاطین کو ہم نے اُن لوگوں کا سرپرست بنا دیا ہے جو ایمان نہیں لاتے ۞
(القرآن - سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 26-27)
|
اہل عرب لباس کو صرف زینت اور موسمی اثرات سے جسم کی حفاظت کے لیے استعمال کرتے تھے، لیکن اس کی سب سے پہلی بنیادی غرض، یعنی جسم کے قابل شرم حصّوں کی پردہ پوشی آپ کے نزدیک کوئی اہمیت نہ رکھتی تھی۔ انہیں اپنے ستر دوسروں کے سامنے کھول دینے میں کوئی باک نہ تھا۔ برہنہ منظر عام پر نہا لینا، راہ چلتے قضائے حاجت کے لیے بیٹھ جانا، ازار کھل جائے تو ستر کے بےپردہ ہوجانے کی پروا نہ کرنا ان کے شب و روز کے معمولات تھے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ان میں سے بکثرت لوگ حج کے موقع پر کعبہ کے گرد برہنہ طواف کرتے تھے اور اس معاملہ میں ان کی عورتیں ان کے مردوں سے بھی کچھ زیادہ بےحیا تھیں۔ ان کی نگاہ میں یہ ایک مذہبی فعل تھا اور نیک کام سمجھ کر وہ اس کا ارتکاب کرتے تھے۔ پھر چونکہ یہ کوئی عربوں ہی کی خصوصیت نہ تھی، دنیا کی اکثر قومیں اسی بےحیائی میں مبتلا رہی ہیں اور آج تک ہیں اس لیے خطاب اہل عرب کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ عام ہے، اور سارے نبی آدم کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ دیکھو، یہ شیطانی اغوا کی ایک کھلی ہوئی علامت تمہاری زندگی میں موجود ہے۔ تم نے اپنے رب کی رہنمائی سے بےنیاز ہو کر اور اس کے رسولوں کی دعوت سے منہ موڑ کر اپنے آپ کو شیطان کے حوالے کردیا اور اس نے تمہیں انسانی فطرت کے راستے سے ہٹاکر اسی بےحیائی میں مبتلا کردیا جس میں وہ تمہارے پہلے باپ اور ماں کو مبتلا کرنا چاہتا تھا۔ اس پر غور کرو تو یہ حقیقت تم پر کھل جائے کہ رسولوں کی رہنمائی کے بغیر تم اپنی فطرت کے ابتدائی مطالبات تک کو نہ سمجھ سکتے ہو اور نہ پورا کرسکتے ہو۔

ان آیات میں جو کچھ ارشاد ہوا ہے اس سے چند اہم حقیقتیں نکھر کر سامنے آجاتی ہیں:
1۔ اوّل یہ کہ لباس انسان کے لیے ایک مصنوعی چیز نہیں ہے بلکہ انسانی فطرت کا ایک اہم مطالبہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے جسم پر حیوانات کی طرح کوئی پوشش پیدائشی طور پر نہیں رکھی بلکہ حیا اور شرم کا مادہ اس کی فطرت میں ودیعت کردیا۔ اس نے انسان کے لیے اس کے اعضائے صنفی کو محض اعضائے صنفی ہی نہیں بنایا بلکہ سَوْأة بھی بنایا جس کے معنی عربی زبان میں ایسی چیز کے ہیں جس کے اظہار کو آدمی قبیح سمجھے۔ پھر اس فطری شرم کے تقاضے کو پورا کرنے کے لیے اس نے کوئی بنا بنایا لباس انسان کو نہیں دے دیا بلکہ اس کی فطرت پر لباس کو الہام کیا (اَنْزَلْنَا علَیْکُمْ لِبَاسًا) تاکہ وہ اپنی عقل سے کام لے کر اپنی فطرت کے اس مطالبے کو سمجھے اور پھر اللہ کے پیدا کردہ مواد سے کام لے کر اپنے لیے لباس فراہم کرے۔

2۔ دوم یہ کہ اس فطری الہام سے رو سے انسان کے لیے لباس کی اخلاقی ضرورت مقدم ہے، یعنی یہ کہ وہ اپنی سَوْأة کو ڈھانکے۔ اور اس کی طبعی ضرورت موخر ہے، یعنی یہ کہ اس کا لباس اس کے لیے ریش (جسم کی آرائش اور موسمی اثرات سے بدن کی حفاظت کا ذریعہ) ہو۔ اس باب میں بھی فطرةً انسان کا معاملہ حیوانات کے برعکس ہے۔ ان کے لیے پوشش کی اصل غرض صرف اس کا ”ریش“ ہونا ہے، رہا اس کا سترپوش ہونا تو ان کے اعضاء صنفی سرے سے سَوْأة ہی نہیں ہیں کہ انہیں چھپانے کے لیے حیوانات کی جبلت میں کوئی داعیہ موجود ہوتا اور اس کا تقاضا پورا کرنے کے لیے ان کے اجسام پر کوئی لباس پیدا کیا جاتا۔ لیکن جب انسانوں نے شیطان کی رہنمائی قبول کی تو معاملہ پھر الٹ گیا۔ اس نے اپنے ان شاگردوں کو اس غلط فہمی میں ڈال دیا کہ تمہارے لیے لباس کی ضرورت بعینہ وہی ہے جو حیوانات کے اعضاء سَوْأة نہیں ہیں اسی طرح تمہارے یہ اعضاء بھی سَوْأة نہیں، محض اعضاء صنفی ہی ہیں۔

3۔ سوم یہ کہ انسان کے لیے لباس کا صرف ذریعہ ستر پوشی اور وسیلہ زینت و حفاظت ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ فی الحقیقت اس معاملہ میں جس بھلائی تک انسان کو پہنچنا چاہیے وہ یہ ہے کہ اس کا لباس تقویٰ کا لباس ہو، یعنی پوری طرح ساتر بھی ہو، زینت میں بھی حد سے بڑھا ہوا یا آدمی کی حیثیت سے گرا ہوا نہ ہو، فخر و غرور اور تکبر و ریا کی شان لیے ہوئے بھی نہ ہو، اور پھر ان ذہنی امراض کی نمائندگی بھی نہ کرتا ہو جن کی بنا پر مرد زنانہ پن اختیار کرتے ہیں، عورتیں مردانہ پن کی نمائش کرنے لگتی ہیں، اور ایک قوم دوسری قوم کے مشابہہ بننے کی کوشش کرکے خود اپنی ذلت کا زندہ اشتہار بن جاتی ہے۔ لباس کے معاملہ میں اس خیر مطلوب کو پہنچنا تو کسی طرح ان لوگوں کے بس میں ہے ہی نہیں جنہوں نے انبیاء (علیہم السلام) پر ایمان لاکر اپنے آپ کو بالکل خدا کی رہنمائی کے حوالے نہیں کردیا ہے۔ جب وہ خدا کی رہنمائی تسلیم کرنے سے انکار کردیتے ہیں تو شیاطین ان کے سر پرست بنا دیے جاتے ہیں، پھر یہ شیاطین ان کو کسی نہ کسی غلطی میں مبتلا کرکے ہی چھوڑتے ہیں۔

4۔ چہارم یہ کہ لباس کا معاملہ بھی اللہ کی ان بیشمار نشانیوں میں سے ایک ہے جو دنیا میں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں اور حقیقت تک پہنچنے میں انسان کی مدد کرتی ہیں۔ بشرطیکہ انسان خود ان سے سبق لینا چاہے۔ اوپر جن حقائق کیطرف ہم نے اشارہ کیا ہے انہیں اگر تامُّل کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ لباس کس حیثیت سے اللہ تعالیٰ کا ایک اہم نشان ہے۔ (تفہیم القران )
🌹🌹🌹
🔰 *Quran Subjects*  🔰 *قرآن مضامین* 🔰

*"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]*

*کیا یہ لوگ قرآن پر تدبر ّنہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل پڑچکے ہیں[47:24]*

*قرآن کے پیغام کوپھیلانا "جہاد کبیرہ" ہے(25:52)*
🤷🏻‍♂️
*English*- https://QuranSubjects.wordpress.com  
*Urdu*- https://Quransubjects.blogspot.com 
https://flip.it/6zSSlW
*FB* - https://www.facebook.com/QuranSubject

Popular Books