Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

خلاصہ قرآن و منتخب آیات - پارہ # 16


سولہویں پارے کا آغاز بھی سورۃ الکہف سے ہوتا ہے۔ پندرھویں پارے میں حضرت  موسیٰ  علیہ السلام  کی جناب خضر علیہ السلام سے ملاقات کا ذکر ہوا تھا۔ حضرت  موسیٰ  علیہ السلام جناب خضر  کے کشتی میں سوراخ کرنے کے بعد ایک خوبصورت بچے کے قتل پر بھی بالکل مطمئن نہ تھے۔ اس لیے آپ نے اس پر بھی اعتراض کیا تھا ۔جناب خضر  نے حضرت  موسیٰ  علیہ السلام کو کہا کہ کیا میں نے آپ کو نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے ۔ حضرت  موسیٰ  علیہ السلام نے فیصلہ کن انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ اب ‘اگر میں نے کوئی سوال کیا تو آپ مجھے اپنے سے علیحد ہ کردیجئے گا۔ جناب خضر اور حضرت  موسیٰ  علیہ السلام اکٹھے آگے بڑھتے ہیں؛ حتیٰ کہ ایک بستی میں جا پہنچتے ہیں۔ بستی کے لوگ بڑے بے مروت تھے‘ انہوں نے دو معزز مہمانوںکی کوئی خاطر تواضع نہ کی ۔ اس بستی میں ایک جگہ ایک دیوار گر چکی تھی۔ جناب خضر اس کی تعمیر نو شروع کر دیتے ہیں ۔جب دیوار مکمل ہو گئی اور جناب خضر نے وہاں سے چلنے کا ارادہ کیا تو حضرت  موسیٰ  علیہ السلام نے کہا کہ اگر آپ چاہتے تو اس کام کا معاوضہ بھی وصول کر سکتے تھے۔ جناب خضر نے کہا کہ اب میرے اور آپ کے درمیان جدائی کا وقت آپہنچا ہے‘ میں آپ کو ان تمام کاموں کی تعبیر سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں‘ جن پر آپ صبر نہیں کر سکے ۔ 

حضرت خضر ں نے حضرت  موسیٰ  علیہ السلام کو بتلایا کہ کشتی میں میرے سوراخ کرنے کا سبب یہ تھا کہ جس ساحل پر جاکر کشتی رکی تھی‘ وہاں پر ایک غاصب بادشاہ کی حکومت تھی ‘جو ہر بے عیب کشتی پر جبراً قبضہ کیے جا رہا تھا۔ میں نے اس کشتی میں سوراخ کر دیا‘ تا کہ کشتی کے مسکین مالک‘ بادشاہ کے ظلم سے بچ جائیں-

جس خوبصورت بچے کو میں نے قتل کیا‘ وہ بڑا ہو کر اپنے والدین کے ایمان کے لیے خطرہ بننے والا تھا‘ اس کی موت کے بعد اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس کے والدین کو ایک صالح بچہ عطا فرمانے والے ہیں۔ 

جہاں تک تعلق ہے ‘دیوار کی تعمیر نو کا‘ تو وہ دیوار ایک ایسے گھر کی تھی‘ جو بستی کے دو یتیم بچوں کی ملکیت تھا ‘ جن کا باپ نیک آدمی تھا اور ان کے گھر کے نیچے خزانہ دفن تھا اور مالک کائنات چاہتے تھے کہ بچے جوان ہو جائیں اور بڑے ہوکر اپنے خزانے کو نکال لیں اور

جو کچھ بھی میں نے کیا اپنی مرضی سے نہیں‘ بلکہ اللہ کے حکم پر کیا ۔ 

یہ واقعہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ مکمل علم ‘اللہ کی ذات کے پاس ہے اور وہ جتنا کسی کو دینا چاہتا ہے‘ دے دیتا ہے؛ اگر چہ حضرت  موسیٰ  علیہ السلام اولوالعزم رسول تھے ‘لیکن اللہ نے بعض معاملات کا علم ‘خضر کو عطا فرما دیا ‘جن سے حضرت  موسیٰ  علیہ السلام واقف نہ تھے۔

سورہ کہف میں اللہ تعالیٰ نے اپنی توانائیوں کو دنیا کی زیب و زینت کے لیے وقف اور صرف کرنے والے لوگوں کے اعمال کو بدترین اعمال قرار دیا‘ جبکہ وہ گمان کرتے ہیںکہ ہ بہترین کاموں میں مشغول ہیں ۔اللہ تعالیٰ کہتے ہیں ایسے لوگ میری ملاقات اور نشانیوں کا انکار کرنے والے ہیں اور ایسے لوگوں کے اعمال برباد ہو جائیں گے۔ 

سورہ کہف کے بعد سورہ مریم ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کی معجزاتی پیدائش کا ذکر کیا ہے۔ جناب زکریا جناب مریم کے کفیل اور خالوتھے ۔جب انہوں نے سیدہ مریم سلام اللہ علیہا کے پاس بے موسمی پھل دیکھے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میںدعا مانگی‘ اے پروردگار تو مجھے بھی صالح اولاد عطا فرمادے ۔ اللہ تعالیٰ نے جناب زکریا  کی فریاد کو سن کر انہیں بڑھاپے میں یحییٰں سے نواز دیا ‘
اسی طرح جناب مریم سلام اللہ علیہا کے پاس جناب جبرائیل  آتے ہیں اور ان کو ایک صالح بیٹے کی بشارت دیتے ہیں۔ آپ کہتی ہیں کیا میرے گھر بیٹا پیدا ہو گا ؟جبکہ میں نے تو کسی مرد کی خلوت کو بھی اختیار نہیں کیا ۔ جبرائیل امین  کہتے ہیں: جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا ارادہ فرمالیتے ہیں تو پھر وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتے۔ وہ کُن کہتے ہیں تو چیزیں رونما ہو جاتی ہیں۔ 
جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوتے ہیں تو سیدہ مریم لو گوں کے طعن و تشنیع کے خوف سے بے قرار ہو جاتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کے دل کو مضبوط فرماتے ہیں اور ان کو حکم دیتے ہیں کہ جب آپ کی ملاقات کسی انسان سے ہو تو آپ نے کہنا ہے کہ میںنے رحمن کیلئے روزہ رکھا ہوا ہے‘ اس لیے میں کسی کے ساتھ کلام نہیں کروں گی ۔جب آپ بستی میں داخل ہوتی ہیں تو بستی کے لوگ آپ کی جھو لی میں بچے کو دیکھ کر کہتے ہیں اے ہارون کی بہن‘ اے عمران کی بیٹی نہ تو آپ کا باپ برا آدمی تھا اور نہ آپ کی ماں نے خیانت کی تھی‘ یہ آپ نے کیا کر دیا ؟حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مریم سلام اللہ علیہا کی گود سے آواز دی: میں اللہ کا بندہ ہوں ‘اللہ تعالیٰ نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔ گود میں لیٹے ہوئے بچے کی آواز سن کر لوگ خاموش ہو جاتے ہیں ۔
سورہ مریم کے بعد سورہ طٰہٰ ہے۔سور ہ طٰہٰ میں اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ  کی کوہ طور پر اپنے ساتھ ہونے والی ملاقات کا ذکر کیا اور یہ بتایا کہ جب موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر تشریف لائے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے پوچھا کہ موسیٰ آ پ کے دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟ جناب موسیٰںنے کہا کہ یہ میری لاٹھی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ کو اپنی چھڑی زمین پر گرانے کا حکم دیا۔ چھڑی زمین پر گرتے ہی اژدھے کی شکل اختیار کر گئی‘ جسے دیکھ کر جناب موسیٰ ں خوف زدہ ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰں کو عصا اٹھانے کا حکم دیا اور کہاکہ یہ دوبارہ اپنی شکل میں واپس آجائے گی ۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ کو فرعون کے سامنے جا کر تبلیغ کرنے کا حکم دیا۔ جناب موسیٰ علیہ السلام نے اس موقع پر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ:
 اے میرے پروردگار میرے سینے کو کھول دے ‘میرے معاملے کو آسان کر دے‘ میری زبان سے گرہ کو دور کردے‘ تاکہ لوگ میری بات کو صحیح طرح سمجھ سکیں اور میرے اہل خانہ میں سے ہارون ں کو میرا وزیر بنادے۔

 اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ  کی دعا کو قبول کیا اور ہارون ں کو آپ کا نائب بنا دیا۔ آ پ ‘دربارِفرعون میں آئے تو فرعون نے اپنی قوم کی حمایت حاصل کرنے کیلئے آپ سے سوال کیا کہ میری قوم کے وہ لوگ جو ہم سے پہلے مر چکے ہیں‘ آپ ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ جناب موسیٰ کا ذہن علم و حکمت سے پُر تھا آپ نے بڑا خوبصورت جواب دیا کہ ان کا علم میرے پروردگار کے پاس ہے اور میرا پروردگار نہ کبھی بھولا ہے اور نہ کبھی گمراہ ہوا ہے 

اللہ تعالیٰ نے فرعون کو تباہ و برباد کردیا اور بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے نجات دی۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰں کو اپنی ملاقات کے لیے بلایا ۔جب جناب موسیٰ اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہو رہے تھے تو قوم ِموسیٰ نے ان کی عدم موجودگی میں سامری کے بنائے ہوئے بچھڑے کی پوجا شروع کردی۔موسیٰ جب واپس پلٹے تو اپنی قوم کو شرک کی دلدل میں اترا ہوا دیکھ کر انتہائی غضبناک ہوئے اور جناب ہارونں سے پوچھا کہ آپ نے اپنی ذمہ داری کیوں ادا نہیں کی ۔جناب ہارون  نے کہا کہ میں نے ان پر سختی اس لیے نہیں کی کہ کہیں یہ لوگ منتشر نہ ہوجائیں۔
جناب موسیٰ ںکا غصہ ٹھنڈا ہوا تو انہوں نے سامری کے بنائے ہوئے بچھڑے کو آگ لگا کر اس کی راکھ کو سمندر میں بہا دیا اورا س جھوٹے معبود کی بے بسی اور بے وقعتی کو بنی اسرائیل پر ثابت کردیا ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن مجید میں مذکور واقعات کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔(آمین)[ علامہ ابتسام الہی ظہیر ]

منتخب آیات ، ترجمہ 

 اُس نے کہا "بس میرا تمہارا ساتھ ختم ہوا اب میں تمہیں ان باتوں کی حقیقت بتاتا ہوں جن پر تم صبر نہ کر سکے (78) اُس کشتی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ چند غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں محنت مزدوری کرتے تھے میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں، کیونکہ آگے ایک ایسے بادشاہ کا علاقہ تھا جو ہر کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا (79) رہا وہ لڑکا، تو اس کے والدین مومن تھے، ہمیں اندیشہ ہوا کہ یہ لڑکا اپنی سرکشی اور کفر سے ان کو تنگ کرے گا (80) اس لیے ہم نے چاہا کہ ان کا رب اس کے بدلے ان کو ایسی اولاد دے جو اخلاق میں بھی اس سے بہتر ہو اور جس سے صلہ رحمی بھی زیادہ متوقع ہو (81) اور اس دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ یہ دو یتیم لڑکوں کی ہے جو اس شہر میں رہتے ہیں اس دیوار کے نیچے اِن بچّوں کے لیے ایک خزانہ مدفون ہے اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا اس لیے تمہارے رب نے چاہا کہ یہ دونوں بچّے بالغ ہوں اور اپنا خزانہ نکال لیں یہ تمہارے رب کی رحمت کی بنا پرکیا گیا ہے، میں نے کچھ اپنے اختیار سے نہیں کر دیا ہے یہ ہے حقیقت اُن باتوں کی جن پر تم صبر نہ کر سکے" (82)
ہم نے اس (ذوالقرنین) کو زمین میں اقتدار عطا کر رکھا تھا اور اسے ہر قسم کے اسباب و وسائل بخشے تھے (84) اس نے کہا، "جو ان میں سے ظلم کرے گا ہم اس کو سزا دیں گے، پھر وہ اپنے رب کی طرف پلٹایا جائے گا اور وہ اسے اور زیادہ سخت عذاب دے گا (87) اور جو ان میں سے ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا اُس کے لیے اچھی جزا ہے اور ہم اس کو نرم احکام دیں گے" (88) اُن لوگوں نے کہا کہ "اے ذوالقرنین، یاجوج اور ماجوج اس سرزمین میں فساد پھیلاتے ہیں تو کیا ہم تجھے کوئی ٹیکس اس کام کے لیے دیں کہ تو ہمارے اور ان کے درمیان ایک بند تعمیر کر دے؟" (94) اس نے کہا " جو کچھ میرے رب نے مجھے دے رکھا ہے وہ بہت ہے تم بس محنت سے میری مدد کرو، میں تمہارے اور ان کے درمیان بند بنائے دیتا ہوں (95)ذوالقرنین نے کہا " یہ میرے رب کی رحمت ہے مگر جب میرے رب کے وعدے کا وقت آئیگا تو وہ اس (بند) کو پیوند خاک کر دے گا، اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے" (98
 سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ: 
اے محمدؐ، ان سے کہو، کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟ (103) وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں (104) یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا اس لیے اُن کے سارے اعمال ضائع ہو گئے، قیامت کے روز ہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے (105) ان کی جزا جہنم ہے اُس کفر کے بدلے جو انہوں نے کیا اور اُس مذاق کی پاداش میں جو وہ میری آیات اور میرے رسولوں کے ساتھ کرتے رہے (106) البتّہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے، ان کی میزبانی کے لیے فردوس کے باغ ہوں گے (107) جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور کبھی اُس جگہ سے نکل کر کہیں جانے کو اُن کا جی نہ چاہے گا (108)
 اے محمدؐ، کہو کہ اگر سمندر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لیے روشنائی بن جائے تو وہ ختم ہو جائے مگر میرے رب کی باتیں ختم نہ ہوں، بلکہ اتنی ہی روشنائی ہم اور لے آئیں تو وہ بھی کفایت نہ کرے (109)
 محمدؐ ﷺ  ایک انسان
 اے محمدؐ، کہو کہ میں تو ایک انسان ہوں تم ہی جیسا، میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے (110 :18)
"اے زکریاؑ، ہم تجھے ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحییٰؑ ہو گا ہم نے اِس نام کا کوئی آدمی اس سے پہلے پیدا نہیں کیا" (7) "اے یحییٰؑ! کتاب الٰہی کو مضبوط تھام لے" ہم نے اُسے بچپن ہی میں "حکم" سے نوازا (12) اور اپنی طرف سے اس کو نرم دلی اور پاکیزگی عطا کی اور وہ بڑا پرہیزگار (13) اور اپنے والدین کا حق شناس تھا وہ جبّار نہ تھا اور نہ نافرمان (14) سلام اُس پر جس روز کہ وہ پیدا ہوا اور جس دن وہ مرے اور جس روز وہ زندہ کر کے اٹھایا جائے (15)

 اور اے محمدؐ، اس کتاب میں مریم کا حال بیان کرو، جبکہ وہ اپنے لوگوں سے الگ ہو کر شرقی جانب گوشہ نشین ہو گئی تھی (16)  اور پردہ ڈال کر اُن سے چھپ بیٹھی تھی اس حالت میں ہم نے اس کے پاس اپنی روح کو (یعنی فرشتے کو) بھیجا اور وہ اس کے سامنے ایک پورے انسان کی شکل میں نمودار ہو گیا (17) مریم یکایک بول اٹھی کہ"اگر تو کوئی خدا ترس آدمی ہے تو میں تجھ سے رحمٰن کی پناہ مانگتی ہوں" (18) اُس نے کہا "میں تو تیرے رب کا فرستادہ ہوں اور اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا دوں" (19) مریم نے کہا "میرے ہاں کیسے لڑکا ہوگا جبکہ مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں ہے اور میں کوئی بدکار عورت نہیں ہوں" (20) فرشتے نے کہا "ایسا ہی ہوگا، تیرا رب فرماتا ہے کہ ایسا کرنا میرے لیے بہت آسان ہے اور ہم یہ اس لیے کریں گے کہ اُس لڑکے کو لوگوں کے لیے ایک نشانی بنائیں اور اپنی طرف سے ایک رحمت اور یہ کام ہو کر رہنا ہے" (21)
 بچہ بول اٹھا "میں اللہ کا بندہ ہوں اُس نے مجھے کتاب دی، اور نبی بنایا (30) اور بابرکت کیا جہاں بھی میں رہوں، اور نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کا حکم دیا جب تک میں زندہ رہوں (31) اور اپنی والدہ کا حق ادا کرنے والا بنایا، اور مجھ کو جبّار اور شقی نہیں بنایا (32) سلام ہے مجھ پر جبکہ میں پیدا ہوا اور جبکہ میں مروں اور جبکہ زندہ کر کے اٹھایا جاؤں" (33) یہ ہے عیسٰی ابن مریم اور یہ ہے اُس کے بارے میں وہ سچی بات جس میں لوگ شک کر رہے ہیں (34) اللہ کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے وہ پاک ذات ہے وہ جب کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ہو جا، اور بس وہ ہو جاتی ہے (35) (اور عیسٰیؑ نے کہا تھا کہ) "اللہ میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی، پس تم اُسی کی بندگی کرو، یہی سیدھی راہ ہے" (36) مگر پھر مختلف گروہ باہم اختلاف کرنے لگے سو جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لیے وہ وقت بڑی تباہی کا ہوگا (37)
اور اس کتاب میں ابراہیمؑ کا قصہ بیان کرو، بے شک وہ ایک راست باز انسان اور ایک نبی تھا (41) (انہیں ذرا اُس موقع کی یاد دلاؤ) جبکہ اُس نے اپنے باپ سے کہا کہ "ابّا جان، آپ کیوں اُن چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کا کوئی کام بنا سکتی ہیں؟ (42) ابّا جان، میرے پاس ایک ایسا عِلم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا، آپ میرے پیچھے چلیں، میں آپ کو سیدھا راستہ بتاؤں گا (43) ابّا جان! آپ شیطان کی بندگی نہ کریں، شیطان تو رحمٰن کا نافرمان ہے (44) ابّا جان، مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ رحمان کے عذاب میں مُبتلا نہ ہو جائیں اور شیطان کے ساتھی بن کر رہیں" (45) باپ نے کہا "ابراہیمؑ، کیا تو میرے معبُودوں سے پھر گیا ہے؟ اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا بس تو ہمیشہ کے لیے مجھ سے الگ ہو جا" (46)
پس جب وہ اُن لوگوں سے اور اُن کے معبُودانِ غیر اللہ سے جُدا ہو گیا تو ہم نے اُس کو اسحاقؑ اور یعقوبؑ جیسی اولاد دی اور ہر ایک کو نبی بنایا (49) اور ان کو اپنی رحمت سے نوازا اور ان کو سچی ناموری عطا کی (50) اور ذکر کرو اس کتاب میں موسیٰؑ کا وہ ایک چیدہ شخص تھا اور رسول نبی تھا (51)
 اور اس کتاب میں اسماعیلؑ کا ذکر کرو وہ وعدے کا سچا تھا اور رسُول نبی تھا (54) وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا تھا اور اپنے رب کے نزدیک ایک پسندیدہ انسان تھا (55
اور اس کتاب میں ادریسؑ کا ذکر کرو وہ ایک راستباز انسان اور ایک نبی تھا (56) اور اسے ہم نے بلند مقام پر اٹھایا تھا (57
یہ وہ پیغمبر ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا آدمؑ کی اولاد میں سے، اور اُن لوگوں کی نسل سے جنہیں ہم نے نوحؑ کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا، ا ور ابراہیمؑ کی نسل سے اور اسرائیلؑ کی نسل سے اور یہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو ہم نے ہدایت بخشی اور برگزیدہ کیا ان کا حال یہ تھا کہ جب رحمان کی آیات ان کو سنائی جاتیں تو روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے تھے (58) پھر ان کے بعد وہ ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشاتِ نفس کی پیروی کی، پس قریب ہے کہ وہ گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں (59) البتہ جو توبہ کر لیں اور ایمان لے آئیں اور نیک عملی اختیار کر لیں وہ جنّت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرّہ برابر حق تلفی نہ ہو گی (60)
تمہارا رب بھولنے والا نہیں ہے (64)
وہ رب ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور اُن ساری چیزوں کا جو آسمان و زمین کے درمیان ہیں پس تم اُس کے بندگی کرو اور اُسی کی بندگی پر ثابت قدم رہو کیا ہے کوئی ہستی تمہارے علم میں اس کی ہم پایہ؟ (65)
تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو جہنم پر وارد نہ ہو، یہ تو ایک طے شدہ بات ہے جسے پُورا کرنا تیرے رب کا ذمہ ہے (71) پھر ہم اُن لوگوں کو بچا لیں گے جو (دنیا میں) متقی تھے اور ظالموں کو اُسی میں گرا ہُوا چھوڑ دیں گے (72)
حالانکہ ان سے پہلے ہم کتنی ہی ایسی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں جو اِن سے زیادہ سر و سامان رکھتی تھیں اور ظاہری شان و شوکت میں اِن سے بڑھی ہوئی تھیں (74) اِن سے کہو، جو شخص گمراہی میں مُبتلا ہوتا ہے اُسے رحمان ڈھیل دیا کرتا ہے یہاں تک کہ جب ایسے لوگ وہ چیز دیکھ لیتے ہیں جس کا اُن سے وعدہ کیا گیا ہے خواہ وہ عذاب الٰہی ہو یا قیامت کی گھڑی تب انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ کس کا حال خراب ہے اور کس کا جتھا کمزور! (75) اس کے برعکس جو لوگ راہِ راست اختیار کرتے ہیں اللہ ان کو راست روی میں ترقی عطا فرماتا ہے اور باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے نزدیک جزا اور انجام کے اعتبار سے بہتر ہیں (76)
اُس وقت لوگ کوئی سفارش لانے پر قادر نہ ہوں گے بجز اُس کے جس نے رحمان کے حضور سے پروانہ حاصل کر لیا ہو (87) وہ کہتے ہیں کہ رحمان نے کسی کو بیٹا بنایا ہے (88) سخت بیہودہ بات ہے جوتم لوگ گھڑ لائے ہو (89) قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہو جائے اور پہاڑ گر جائیں (90) اس بات پر کہ لوگوں نے رحمان کے لیے اولاد ہونے کا دعویٰ کیا! (91) رحمان کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے (92)
 یہ سارے کے سارے قیامت کے دن اکیلے اس کے پاس حاضر ہونے والے ہیں (95)
 ہم نے اس قرآن کو تیری زبان میں بہت ہی آسان کر دیا ہے کہ تو اس کے ذریعہ سے پرہیزگاروں کو خوشخبری دے اور جھگڑالو لوگوں کو ڈرا دے (97)
ہم نے یہ قرآن تم پر اس لیے نازل نہیں کیا ہے کہ تم مصیبت میں پڑ جاؤ ( 2 :20) یہ تو ایک یاد دہانی ہے ہر اس شخص کے لیے جو ڈرے (3) نازل کیا گیا ہے اُس ذات کی طرف سے جس نے پیدا کیا ہے زمین کو اور بلند آسمانوں کو (4)
وہاں پہنچا تو پکارا گیا "اے موسیٰؑ! (11) میں ہی تیرا رب ہوں، جوتیاں اتار دے تو وادی مقدس طویٰ میں ہے (12) اور میں نے تجھ کو چُن لیا ہے، سُن جو کچھ وحی کیا جاتا ہے (13) میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پس تو میری بندگی کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر (14) قیامت کی گھڑی ضرور آنے والی ہے میں اُس کا وقت مخفی رکھنا چاہتا ہوں، تاکہ ہر متنفّس اپنی سعی کے مطابق بدلہ پائے (15) پس کوئی ایسا شخص جو اُس پر ایمان نہیں لاتا اور اپنی خواہش نفس کا بندہ بن گیا ہے تجھ کو اُس گھڑی کی فکر سے نہ روک دے، ورنہ تو ہلاکت میں پڑ جائے گا (16)
 اب تو فرعون کے پاس جا، وہ سرکش ہو گیا ہے" (24) موسیٰؑ نے عرض کیا " پروردگار، میرا سینہ کھول دے (25) اور میرے کام کو میرے لیے آسان کر دے (26) اور میری زبان کی گرہ سُلجھا دے (27) تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں (28)
جا، تُو اور تیرا بھائی میری نشانیوں کے ساتھ ا ور دیکھو، تم میری یاد میں تقصیر نہ کرنا (42) جاؤ تم دونوں فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہو گیا ہے (43) اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے" (44)
موسیٰؑ نے کہا "اُس کا علم میرے رب کے پاس ایک نوشتے میں محفوظ ہے میرا رب نہ چُوکتا ہے نہ بھُولتا ہے" (52
اِسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا ہے، اِسی میں ہم تمہیں واپس لے جائیں گے اور اسی سے تم کو دوبارہ نکالیں گے (55) ہم نے فرعون کو اپنی سب ہی نشانیاں دکھائیں مگر وہ جھٹلائے چلا گیا اور نہ مانا (56
آخر کار کچھ لوگو ں نے کہا کہ "یہ دونوں تو محض جادوگر ہیں اِن کا مقصد یہ ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تم کو تمہاری زمین سے بے دخل کر دیں اور تمہارے مثالی طریق زندگی (way of life) کا خاتمہ کر دیں (63)
 پھینک جو کچھ تیرے ہاتھ میں ہے، ابھی اِن کی ساری بناوٹی چیزوں کو نگلے جاتا ہے یہ جو کچھ بنا کر لائے ہیں یہ تو جادوگر کا فریب ہے، اور جادوگر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا، خواہ کسی شان سے وہ آئے" (69) آخر کو یہی ہُوا کہ سارے جادوگر سجدے میں گرا دیے گئے اور پکار اٹھے "مان لیا ہم نے ہارونؑ اور موسیٰؑ کے رب کو" (70)
حقیقت یہ ہے کہ جو مجرم بن کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوگا اُس کے لیے جہنم ہے جس میں وہ نہ جیے گا نہ مرے گا (74) اور جو اس کے حضور مومن کی حیثیت سے حاضر ہو گا، جس نے نیک عمل کیے ہوں گے، ایسے سب لوگوں کے لیے بلند درجے ہیں (75)
اے بنی اسرائیل، ہم نے تم کو تمہارے دشمن سے نجات دی، اور طور کے دائیں جانب تمہاری حاضری کے لیے وقت مقرر کیا اور تم پر من و سلویٰ اتارا (80) کھاؤ ہمارا دیا ہوا پاک رزق اور اسے کھا کر سرکشی نہ کرو، ورنہ تم پر میرا غضب ٹوٹ پڑے گا اور جس پر میرا غضب ٹوٹا وہ پھر گر کر ہی رہا (81) البتہ جو توبہ کر لے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھا چلتا رہے، اُس کے لیے میں بہت درگزر کرنے والا ہوں (82)
اور ان کے لیے (سامری ) ایک بچھڑے کی مورت بنا کر نکال لایا جس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی لوگ پکار اٹھے "یہی ہے تمہارا خدا اور موسیٰؑ کا خدا، موسیٰؑ اسے بھول گیا" (88) کیا وہ نہ دیکھتے تھے کہ نہ وہ اُن کی بات کا جواب دیتا ہے اور نہ ان کے نفع و نقصان کا کچھ اختیار رکھتا ہے؟ (89)  موسیٰؑ نے (سامری کو) کہا " اچھا تو جا، اب زندگی بھر تجھے یہی پکارتے رہنا ہے کہ مجھے نہ چھونا اور تیرے لیے بازپُرس کا ایک وقت مقرر ہے جو تجھ سے ہرگز نہ ٹلے گا اور دیکھ اپنے اِس خدا کو جس پر تو ریجھا ہُوا تھا، اب ہم اسے جلا ڈالیں گے اور ریزہ ریزہ کر کے دریا میں بہا دیں گے (97) لوگو، تمہارا خدا تو بس ایک ہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے، ہر چیز پر اُس کا علم حاوی ہے" (98)
اور ہم اسی طرح گزشتہ دور کے واقعات آپ سے بیان کرتے ہیں اور ہم نے اپنی بارگاہ سے آپ کو قرآن بھی عطا کردیا ہے (99) جو اس سے اعراض کرے گا وہ قیامت کے دن اس انکار کا بوجھ اٹھائے گا (100)
 جس دن صور پھونکا جائے گا اور ہم تمام مجرمین کو بدلے ہوئے رنگ میں اکٹھا کریں گے (102) یہ سب آپس میں یہ بات کررہے ہوں گے کہ ہم دنیا میں صرف دس ہی دن تو رہے ہیں (103) ہم ان کی باتوں کو خوب جانتے ہیں جب ان کا سب سے ہوشیار یہ کہہ رہا تھا کہ تم لوگ صرف ایک دن رہے ہو (104)
اس دن  (یوم قیامت) کسی کی سفارش کام نہ آئے گی سوائے ان کے جنہیں خدا نے اجازت دے دی ہو اور وہ ان کی بات سے راضی ہو (109) وہ سب کے سامنے اور پیچھے کے حالات سے باخبر ہے اور کسی کا علم اس کی ذات کو محیط نہیں ہے (110) اس دن سارے چہرے خدائے حی و قیوم کے سامنے جھکے ہوں گے اور ظلم کا بوجھ اٹھانے والا ناکام اور رسوا ہوگا (111) اور جو نیک اعمال کرے گا اور صاحبِ ایمان ہوگا وہ نہ ظلم سے ڈرے گا اور نہ نقصان سے (112) اور اسی طرح ہم نے قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا ہے اور اس میں طرح طرح سے عذاب کا تذکرہ کیا ہے کہ شاید یہ لوگ پرہیز گار بن جائیں یا قرآن ان کے اندر کسی طرح کی عبرت پیدا کردے (113 :20 )
اور یہ کہتے رہیں کہ پروردگار میرے علم میں اضافہ فرما (114)
پھر خدا نے انہیں (آدم ، حوا) چن لیا اور ان کی توبہ قبول کرلی اور انہیں راستہ پر لگادیا (122) اور حکم دیا کہ تم دونوں یہاں سے نیچے اتر جاؤ سب ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے اس کے بعد اگر میری طرف سے ہدایت آجائے تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ پریشان (123) اور جو میرے ذکر سے اعراض کرے گا اس کے لئے زندگی کی تنگی بھی ہے اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا بھی محشور کریں گے (124) وہ کہے گا کہ پروردگار یہ تو نے مجھے اندھا کیوں محشور کیا ہے جب کہ میں دا» دنیا میں صاحبِ بصارت تھا (125) ارشاد ہوگا کہ اسی طرح ہماری آیتیں تیرے پاس آئیں اور تونے انہیں بھلا دیا تو آج تو بھی نظر انداز کردیا جائے گا (126)
کیا انہیں اس بات نے رہنمائی نہیں دی کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی نسلوں کو ہلاک کردیا جو اپنے علاقہ میں نہایت اطمینان سے چل پھر رہے تھے بیشک اس میں صاحبان هعقل کے لئے بڑی نشانیاں ہیں (128)
 لہذا آپ ان کی باتوں پر صبر کریں اور آفتاب نکلنے سے پہلے (فجر) اور اس کے ڈوبنے کے بعد (مغرب) اپنے رب کی تسبیح کرتے رہیں اور رات  (عشاء.. تہجد) کے اوقات میں اور دن کے اطراف (ظہر ,. عصر) میں بھی تسبیح پروردگار کریں کہ شاید آپ اس طرح راضی اور خوش ہوجائیں (20:130
[تفسیر : حد کے ساتھ تسبیح اور محض تسبیح دونوں سے یہاں مراد نماز ہے کہ یہ عرب میں عام دستور ہے کہ کسی چیز کا کوئی خاص جزء بول کر اس سے مراد کل لیا جاتا ہے اور اس کی مثالیں بہت ہیں۔ سورج کے طلوع سے پہلے سے مراد فجر کی نماز ہے اور غروب سے پہلے کی نماز عصر ہے۔ رات کے کچھ اوقات سے مراد نماز عشاء ہے اور نماز تہجد بھی جو آپ پر تو فرض تھی لیکن دوسروں کے لئے سنت مؤکدہ ہے۔ اور ان کے کنارے تین ہی ہوسکتے ہیں، صبح، شام اور زوال آفتاب، صبح سے مراد فجر کا نماز ہے جس کا ذکر پہلے ہی آچکا، شام سے مراد نماز مغرب اور زوال آفتاب سے مراد ظہر کی نماز ہے۔ گویا اس ایک آیت سے ہی پانچوں فرض نمازیں اور ان کے اوقات ثابت ہوجاتے ہیں اور اس آیت کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کو کسی وقت بھی اللہ کی یاد اور تسبیح و تہلیل سے غافل نہ رہنا چاہئے۔]
اور خبردار ہم نے ان میں سے بعض لوگوں کو جو زندگانی دنیا کی رونق سے مالا مال کردیا ہے اس کی طرف آپ نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھیں کہ یہ ان کی آزمائش کا ذریعہ ہے اور آپ کے پروردگار کا رزق اس سے کہیں زیادہ بہتر اور پائیدار ہے (131) اور اپنے اہل کو نماز کا حکم دیں اور اس پر صبر کریں ہم آپ سے رزق کے طلبگار نہیں ہیں ہم تو خود ہی رزق دیتے ہیں اور عاقبت صرف صاحبانِ تقویٰ کے لئے ہے (132)
 آپ کہہ دیجئے کہ سب اپنے اپنے وقت کا انتظار کررہے ہیں تم بھی انتظار کرو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ کون لوگ سیدھے راستہ پر چلنے والے اور ہدایت یافتہ ہیں ( 135 :20)

~~~~~~~~~
🌹🌹🌹
🔰 Quran Subjects  🔰 قرآن مضامین 🔰
"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]
The messenger said, "My Lord, my people have deserted this Quran." (Quran 25:30)
~~~~~~~~~
اسلام دین کامل کو واپسی ....
"اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان طریقوں  کو واضح کرے اور انہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحاء کرتے تھے- وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجّہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے ، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی- ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ. اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے." (قرآن  4:26,27,28]
اسلام کی پہلی صدی، دین کامل کا عروج کا زمانہ تھا ، خلفاء راشدین اور اصحابہ اکرام، الله کی رسی قرآن کو مضبوطی سے پکڑ کر اس پر کاربند تھے ... پہلی صدی حجرہ کے بعد جب صحابہ اکرام بھی دنیا سے چلے گیے تو ایک دوسرے دور کا آغاز ہوا ... الله کی رسی قرآن کو بتدریج پس پشت ڈال کر تلاوت تک محدود کر دیا ...اور مشرکوں کی طرح فرقہ واریت اختیار کرکہ دین کامل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے-  ہمارے مسائل کا حل پہلی صدی کے اسلام دین کامل کو واپسی میں ہے  .. مگر کیسے >>>>>>

Popular Books