Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

جنگی قیدیوں سے سلوک اور اخبار احاد سے تاویل


جبگ میں  پہلے دشمن کی طاقت کو اچھی طرح کچل  دیا جائے پھر قیدی پکڑنے کی فکر کی جائے۔ جنگی قیدیوں سے فدیہ وصول کرنے کی اجازت ہے لیکن اس کے ساتھ شرط یہ لگائی گئی تھی کہ پہلے دشمن کی طاقت کو اچھی طرح کچل  دیا جائے:

 مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ ۚ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّـهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۗ وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٦٧﴾ لَّوْلَا كِتَابٌ مِّنَ اللَّـهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿٦٨﴾ فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلَالًا طَيِّبًا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (8:69)
کسی نبی کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں دشمنوں کو اچھی طرح کچل نہ دے تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو، حالانکہ اللہ کے پیشِ نظر آخرت ہے، اور اللہ غالب اور حکیم ہے (67) اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا تو جو کچھ تم لوگوں نے لیا ہے اس کی پاداش میں تم کو بڑی سزا دی جاتی (68) پس جو کچھ تم نے مال حاصل کیا ہے اسے کھاؤ کہ وہ حلال اور پاک ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو یقیناً اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے (8:69)

اس آیت کی تفسیر میں اہل تاویل نے جو روایات بیان کی ہیں وہ یہ ہیں کہ جنگ بدر میں لشکر قریش کے جو لوگ گرفتار ہوئے تھے ان کے متعلق بعد میں مشورہ ہوا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے رائے دی کہ فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے، اور حضرت عمر ؓ نے کہا کہ قتل کردیا جائے۔ نبی ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کی رائے قبول کی اور فدیہ کا معاملہ طے کرلیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات بطور عتاب نازل فرمائیں۔ مگر مفسرین آیت کے اس فقرے کی کوئی معقول تاویل نہیں کرسکے ہیں کہ ”اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا۔“ وہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد تقدیر الہٰی ہے، یا یہ کہ اللہ تعالیٰ پہلے ہی یہ ارادہ فرماچکا تھا کہ مسلمانوں کے لیے غنائم کو حلال کر دے گا۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ جب تک وحی تشریعی کے ذریعہ سے کسی چیز کی اجازت نہ دی گئی ہو، اس کا لینا جائز نہیں ہو سکتا۔ 
پس نبی ﷺ سمیت پوری اسلامی جماعت اس تاویل کی رو سے گناہ گار قرار پاتی ہے اور ایسی تاویل کو "اخبار احاد" کے اعتماد پر قبول کرلینا ایک بڑی ہی سخت بات ہے۔
میرے نزدیک اس مقام کی صحیح تفسیر یہ ہے کہ جنگ بدر سے پہلے سورة محمد میں جنگ کے متعلق جو ابتدائی ہدایات دی گئی تھیں، ان میں یہ ارشاد ہوا تھا کہ آیت (فَاِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ ۭ حَتّىٰٓ اِذَآ اَثْخَنْتُمُوْهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ ڎ فَاِمَّا مَنًّـۢا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَاۗءً حَتّٰى تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَهَا سورة محمد (آیت 4) اس ارشاد میں جنگی قیدیوں سے فدیہ وصول کرنے کی اجازت تو دے دی گئی تھی لیکن اس کے ساتھ شرط یہ لگائی گئی تھی کہ پہلے دشمن کی طاقت کو اچھی طرح کچل  دیا جائے پھر قیدی پکڑنے کی فکر کی جائے۔ اس فرمان کی رو سے مسلمانوں نے بدر میں جو قیدی گرفتار کیے اور اس کے بعد ان سے جو فدیہ وصول کیا وہ تھا تو اجازت کے مطابق، مگر غلطی یہ ہوئی کہ ”دشمن کی طاقت کو کچل  دینے“ کی جو شرط مقدم رکھی گئی تھی اسے پورا کرنے میں کوتاہی کی گئی۔ جنگ میں جب قریش کی فوج بھاگ نکلی تو مسلمانوں کا یک بڑا گروہ غنیمت لوٹنے اور کفار کے آدمیوں کو پکڑ پکڑ کر باندھنے میں لگ گیا اور بہت کم آدمیوں نے دشمنوں کا کچھ دور تک تعاقب کیا۔ حالانکہ اگر مسلمان پوری طاقت سے ان کا تعاقب کرتے تو قریش کی طاقت کا اسی روز خاتمہ ہوگیا ہوتا۔ اسی پر اللہ تعالیٰ عتاب فرما رہا ہے اور یہ عتاب نبی ﷺ پر نہیں ہے بلکہ مسلمانوں پر ہے۔ فرمان مبارک کا منشا یہ ہے کہ ”تم لوگ ابھی نبی کے مشن کو اچھی طرح نہیں سمجے ہو۔ نبی کا اصل کام یہ نہیں ہے کہ فدیے اور غنائم وصول کرکے خزانے بھرے، بلکہ اس کے نصب العین سے جو چیز براہ راست تعلق رکھتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ کفر کی طاقت ٹوٹ جائے۔ مگر تم لوگوں پر بار بار دنیا کا لالچ غالب ہوجاتا ہے۔ پہلے دشمن کی اصل طاقت کے بجائے قافلے پر حملہ کرنا چاہا، پھر دشمن کا سر کچلنے کے بجائے غنیمت لوٹنے اور قیدی پکڑنے میں لگ گئے، پھر غنیمت پر جھگڑنے لگے۔ اگر ہم پہلے فدیہ وصول کرنے کی اجازت نہ دے چکے ہوتے تو اس پر تمہیں سخت سزا دیتے۔ خیر اب جو کچھ تم نے لیا ہے وہ کھالو، مگر آئندہ ایسی روش سے بچتے رہو جو خدا کے نزدیک ناپسندیدہ ہے“۔ اس رائے پر پہنچ چکا تھا کہ امام جصاص کی کتاب احکام القرآن میں یہ دیکھ کر مجھے مزید اطمینان حاصل ہوا کہ امام موصوف بھی اس تاویل کو کم از کم قابل لحاظ ضرور قرار دیتے ہیں۔ پھر سیرت ابن ہشام میں یہ روایت نظر سے گزری کہ جس وقت مجاہدین اسلام مال غنیمت لوٹنے اور کفار کے آدمیوں کو پکڑ پکڑ کر باندھنے میں لگے ہوئے تھے، نبی ﷺ نے دیکھا کہ حضرت سعد بن معاذ کے چہرے پر کچھ کراہت کے آثات ہیں۔ حضور نے ان سے دریافت فرمایا کہ ”اے سعد، معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کی یہ کاروائی تمہیں پسند نہیں آرہی ہے“۔ انہوں نے عرض کیا ”جی ہاں یا رسول اللہ، یہ پہلا معرکہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اہل شرک کو شکست دلوائی ہے، اس موقع پر انہیں قیدی بنا کر ان کی جانیں بچا لینے سے زیادہ بہتر یہ تھا کہ ان کو خوب کچل ڈالا جاتا - (تفہیم القرآن )
~~~~~~~~~
🌹🌹🌹
🔰 Quran Subjects  🔰 قرآن مضامین 🔰
"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]
The messenger said, "My Lord, my people have deserted this Quran." (Quran 25:30)
~~~~~~~~~

تدبر اور توکل توازن



جس کے ذہن پر ظاہر کا غلبہ ہوتا ہے وہ توکل سے غافل ہو کر تدبیر ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے
اور جس کے دل پر باطن چھا جاتا ہے وہ تدبیر سے بےپروا ہو کر نرے توکل ہی کے بل پر زندگی کی گاڑی چلانا چاہتا ہے

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَقَالَ يٰبَنِىَّ لَا تَدۡخُلُوۡا مِنۡۢ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّادۡخُلُوۡا مِنۡ اَبۡوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ‌ؕ وَمَاۤ اُغۡنِىۡ عَنۡكُمۡ مِّنَ اللّٰهِ مِنۡ شَىۡءٍؕ‌ اِنِ الۡحُكۡمُ اِلَّا لِلّٰهِ‌ؕ عَلَيۡهِ تَوَكَّلۡتُ‌ۚ وَعَلَيۡهِ فَلۡيَتَوَكَّلِ الۡمُتَوَكِّلُوۡنَ‏ ۞ وَلَمَّا دَخَلُوۡا مِنۡ حَيۡثُ اَمَرَهُمۡ اَبُوۡهُمۡ ؕمَا كَانَ يُغۡنِىۡ عَنۡهُمۡ مِّنَ اللّٰهِ مِنۡ شَىۡءٍ اِلَّا حَاجَةً فِىۡ نَفۡسِ يَعۡقُوۡبَ قَضٰٮهَا‌ؕ وَاِنَّهٗ لَذُوۡ عِلۡمٍ لِّمَا عَلَّمۡنٰهُ وَلٰكِنَّ اَكۡثَرَ النَّاسِ لَا يَعۡلَمُوۡنَ ۞
(القرآن - سورۃ نمبر 12 يوسف، آیت نمبر 67-68)
ترجمہ:
پھر اس نے کہا "میرے بچو، مصر کے دارالسطنت میں ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے جانا مگر میں اللہ کی مشیت سے تم کو نہیں بچا سکتا، حکم اُس کے سوا کسی کا بھی نہیں چلتا، اسی پر میں نے بھروسہ کیا، اور جس کو بھی بھروسہ کرنا ہو اسی پر کرے" ۞ اور واقعہ بھی یہی ہوا کہ جب وہ اپنے باپ کی ہدایت کے مطابق شہر میں (متفرق دروازوں سے) داخل ہوئے تو اس کی یہ احتیاطی تدبیر اللہ کی مشیت کے مقابلے میں کچھ بھی کام نہ آسکی ہاں بس یعقوبؑ کے دل میں جو ایک کھٹک تھی اسے دور کرنے کے لیے اس نے اپنی سی کوشش کر لی بے شک وہ ہماری دی ہوئی تعلیم سے صاحب علم تھا مگر اکثر لوگ معاملہ کی حقیقت کو جانتے نہیں ہیں۞ 
(القرآن - سورۃ نمبر 12 يوسف، آیت نمبر 67-68)

 اس کا مطلب یہ ہے کہ تدبیر اور توکل کے درمیان یہ ٹھیک ٹھیک توازن جو تم حضرت یعقوب کے مذکورہ بالا اقوال میں پاتے ہو، یہ دراصل علم حقیقت کے اس فیضان کا نتیجہ تھا جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان پر ہوا تھا، ایک طرف وہ عالم اسباب کے قوانین کے مطابق تمام ایسی تدبیریں کرتے ہیں جو عقل و فکر اور تجربہ کی بنا پر اختیار کرنی ممکن تھیں، بیٹوں کو ان کا پہلا جرم یاد دلا کر زجر و تنبیہ کرتے ہیں تاکہ وہ دوبارہ ویسا ہی جرم کرنے کی جرات نہ کریں، ان سے خدا کے نام پر عہد و پیمان لیتے ہیں کہ سوتیلے بھائی کی حٖفاظت کریں گے اور وقت کے سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے جس احتیاطی تدبیر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اسے بھی استعمال کرنے کا حکم دیتے ہیں تاکہ اپنی حد تک کوئی خارجی سبب بھی ایسا نہ رہنے دیا جائے جو ان لوگوں کے گھر جانے کا موجب ہو، مگر دوسری طرف ہر آن یہ بات ان کے پیش نظر ہے اور اس کا بار بار اظہار کرتے ہیں کہ کوئی انسانی تدبیر اللہ کی مشیت کو نافذ ہونے سے نہیں روک سکتی، اور اصل حفاظت اللہ کی حفاظت ہے، اور بھروسا اپنی تدبیروں پر نہیں بلکہ اللہ ہی کے فضل پر ہونا چاہیے، یہ صحیح توازن اپنی باتوں میں اور اپنے کاموں میں صرف وہی شخص قائم کرسکتا ہے جو حقیقت کا علم رکھتا ہو، جو یہ بھی جانتا ہو کہ حیات دنیا کے ظاہری پہلو میں اللہ بنائی ہوئی فطرت انسان سے کس سعی و عمل کا تقاضا کرتی ہے اور اس سے بھی واقف ہو کہ اس ظاہر کے پیچھے جو حقیقت نفس الامری پوشیدہ ہے اس کی بنا پر اصل کار فرما طاقت کونسی ہے اور اس کے ہوتے ہوئے اپنی سعی و عمل پر انسان کا بھروسا کس قدر بےبنیاد ہے، یہی وہ بات ہے جس کو اکثر لوگ نہیں جانتے، ان میں سے 
*جس کے ذہن پر ظاہر کا غلبہ ہوتا ہے وہ توکل سے غافل ہو کر تدبیر ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے اور جس کے دل پر باطن چھا جاتا ہے وہ تدبیر سے بےپروا ہو کر نرے توکل ہی کے بل پر زندگی کی گاڑی چلانا چاہتا ہے۔ (تفہیم القرآن)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*تدبر اور توکل توازن*
*جس کے ذہن پر ظاہر کا غلبہ ہوتا ہے وہ توکل سے غافل ہو کر تدبیر ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے*
*اور جس کے دل پر باطن چھا جاتا ہے وہ تدبیر سے بےپروا ہو کر نرے توکل ہی کے بل پر زندگی کی گاڑی چلانا چاہتا ہے*
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَقَالَ يٰبَنِىَّ لَا تَدۡخُلُوۡا مِنۡۢ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّادۡخُلُوۡا مِنۡ اَبۡوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ‌ؕ وَمَاۤ اُغۡنِىۡ عَنۡكُمۡ مِّنَ اللّٰهِ مِنۡ شَىۡءٍؕ‌ اِنِ الۡحُكۡمُ اِلَّا لِلّٰهِ‌ؕ عَلَيۡهِ تَوَكَّلۡتُ‌ۚ وَعَلَيۡهِ فَلۡيَتَوَكَّلِ الۡمُتَوَكِّلُوۡنَ‏ ۞ وَلَمَّا دَخَلُوۡا مِنۡ حَيۡثُ اَمَرَهُمۡ اَبُوۡهُمۡ ؕمَا كَانَ يُغۡنِىۡ عَنۡهُمۡ مِّنَ اللّٰهِ مِنۡ شَىۡءٍ اِلَّا حَاجَةً فِىۡ نَفۡسِ يَعۡقُوۡبَ قَضٰٮهَا‌ؕ وَاِنَّهٗ لَذُوۡ عِلۡمٍ لِّمَا عَلَّمۡنٰهُ وَلٰكِنَّ اَكۡثَرَ النَّاسِ لَا يَعۡلَمُوۡنَ ۞
(القرآن - سورۃ نمبر 12 يوسف، آیت نمبر 67-68)
ترجمہ:
پھر اس نے کہا "میرے بچو، مصر کے دارالسطنت میں ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے جانا مگر میں اللہ کی مشیت سے تم کو نہیں بچا سکتا، حکم اُس کے سوا کسی کا بھی نہیں چلتا، اسی پر میں نے بھروسہ کیا، اور جس کو بھی بھروسہ کرنا ہو اسی پر کرے" ۞ اور واقعہ بھی یہی ہوا کہ جب وہ اپنے باپ کی ہدایت کے مطابق شہر میں (متفرق دروازوں سے) داخل ہوئے تو اس کی یہ احتیاطی تدبیر اللہ کی مشیت کے مقابلے میں کچھ بھی کام نہ آسکی ہاں بس یعقوبؑ کے دل میں جو ایک کھٹک تھی اسے دور کرنے کے لیے اس نے اپنی سی کوشش کر لی بے شک وہ ہماری دی ہوئی تعلیم سے صاحب علم تھا مگر اکثر لوگ معاملہ کی حقیقت کو جانتے نہیں ہیں۞ 
(القرآن - سورۃ نمبر 12 يوسف، آیت نمبر 67-68)

 اس کا مطلب یہ ہے کہ تدبیر اور توکل کے درمیان یہ ٹھیک ٹھیک توازن جو تم حضرت یعقوب کے مذکورہ بالا اقوال میں پاتے ہو، یہ دراصل علم حقیقت کے اس فیضان کا نتیجہ تھا جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان پر ہوا تھا، ایک طرف وہ عالم اسباب کے قوانین کے مطابق تمام ایسی تدبیریں کرتے ہیں جو عقل و فکر اور تجربہ کی بنا پر اختیار کرنی ممکن تھیں، بیٹوں کو ان کا پہلا جرم یاد دلا کر زجر و تنبیہ کرتے ہیں تاکہ وہ دوبارہ ویسا ہی جرم کرنے کی جرات نہ کریں، ان سے خدا کے نام پر عہد و پیمان لیتے ہیں کہ سوتیلے بھائی کی حٖفاظت کریں گے اور وقت کے سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے جس احتیاطی تدبیر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اسے بھی استعمال کرنے کا حکم دیتے ہیں تاکہ اپنی حد تک کوئی خارجی سبب بھی ایسا نہ رہنے دیا جائے جو ان لوگوں کے گھر جانے کا موجب ہو، مگر دوسری طرف ہر آن یہ بات ان کے پیش نظر ہے اور اس کا بار بار اظہار کرتے ہیں کہ کوئی انسانی تدبیر اللہ کی مشیت کو نافذ ہونے سے نہیں روک سکتی، اور اصل حفاظت اللہ کی حفاظت ہے، اور بھروسا اپنی تدبیروں پر نہیں بلکہ اللہ ہی کے فضل پر ہونا چاہیے، یہ صحیح توازن اپنی باتوں میں اور اپنے کاموں میں صرف وہی شخص قائم کرسکتا ہے جو حقیقت کا علم رکھتا ہو، جو یہ بھی جانتا ہو کہ حیات دنیا کے ظاہری پہلو میں اللہ بنائی ہوئی فطرت انسان سے کس سعی و عمل کا تقاضا کرتی ہے اور اس سے بھی واقف ہو کہ اس ظاہر کے پیچھے جو حقیقت نفس الامری پوشیدہ ہے اس کی بنا پر اصل کار فرما طاقت کونسی ہے اور اس کے ہوتے ہوئے اپنی سعی و عمل پر انسان کا بھروسا کس قدر بےبنیاد ہے، یہی وہ بات ہے جس کو اکثر لوگ نہیں جانتے، ان میں سے 
*جس کے ذہن پر ظاہر کا غلبہ ہوتا ہے وہ توکل سے غافل ہو کر تدبیر ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے اور جس کے دل پر باطن چھا جاتا ہے وہ تدبیر سے بےپروا ہو کر نرے توکل ہی کے بل پر زندگی کی گاڑی چلانا چاہتا ہے۔ (تفہیم القرآن)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1. https://QuranSubjects.blogspot.com 
2. https://youtu.be/MtuF2N2Utz4
🌹🌹🌹
*"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]*
*کیا یہ لوگ قرآن پر تدبر ّنہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل پڑچکے ہیں[47:24]*
*قرآن کے پیغام کوپھیلانا "جہاد کبیرہ" ہے(25:52)*

#Quran #Islam #Muslims #Hadith #Bidah #بدعة

اختلاف ، اللہ کے پلان کا اہم جزو



اختلافات سے گھبرا کر یکسانی ویک رنگی کے لیے بےچین نہ ہو۔ اس دنیا کا تو سارا کارخانہ ہی اختلاف اور امتیاز اور تنوع کی بدولت چل رہا ہے۔ مثال کے طور پر تمہارے سامنے نمایاں ترین نشانیاں یہ رات اور دن ہیں جو روز تم پر طاری ہوتے رہتے ہیں۔

اختلافات میں کتنی عظیم الشان مصلحتیں موجود ہیں۔ اگر تم پر دائما ایک ہی حالت طاری رہتی تو کیا یہ ہنگامہ وجود چل سکتا تھا ؟ 

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ 0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَجَعَلۡنَا الَّيۡلَ وَالنَّهَارَ اٰيَتَيۡنِ‌ فَمَحَوۡنَاۤ اٰيَةَ الَّيۡلِ وَجَعَلۡنَاۤ اٰيَةَ النَّهَارِ مُبۡصِرَةً لِّتَبۡتَغُوۡا فَضۡلًا مِّنۡ رَّبِّكُمۡ وَلِتَعۡلَمُوۡا عَدَدَ السِّنِيۡنَ وَالۡحِسَابَ‌ؕ وَكُلَّ شَىۡءٍ فَصَّلۡنٰهُ تَفۡصِيۡلًا‏ ۞ (سورۃ نمبر 17 الإسراء, آیت نمبر 12)
ترجمہ:
دیکھو، ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا ہے۔ رات کی نشانی کو ہم نے بے نُور بنایا، اور دن کی نشانی کو روشن کر دیا تاکہ تم اپنے ربّ کا فضل تلاش کر سکو اور ماہ و سال کا حساب معلوم کر سکو۔ اِسی طرح ہم نے ہر چیز کو الگ الگ ممیَّز کر کے رکھا ہے۔
پس جس طرح تم دیکھ رہے ہو کہ عالم طبیعیات میں فرق و اختلاف اور امتیاز کے ساتھ بیشمار مصلحتیں وابستہ ہیں، اسی طرح انسانی مزاجوں اور خیالات اور رحجانات میں بھی جو فرق و امتیاز پایا جاتا ہے وہ بڑی مصلحتوں کا حامل ہے۔ 

خیر اس میں نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی فوق الفطری مداخلت سے اس کو مٹا کر سب انسانوں کو جبرا نیک اور مومن بنا دے، یا کافروں اور فاسقوں کو ہلاک کر کے دنیا میں صرف اہل ایمان وطاعت ہی کو باقی رکھا کرے۔
اس کی خواہش کرنا تو اتنا ہی غلط ہے جتنا یہ خواہش کرنا کہ صرف دن ہی دن میں رہا کرے، رات کی تاریکی سرے سے کبھی طاری ہی نہ ہو۔

البتہ خیر جس چیز میں ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہدایت کی روشنی جن لوگوں کے پاس ہے وہ اسے لے کر ضلالت کی تاریکی دور کرنے کے لیے مسلسل سعی کرتے رہیں، اور جب رات کی طرح کوئی تاریکی کا دور آئے تو وہ سورج کی طرح اس کا پیچھا کریں، یہاں تک کہ روز روشن نمودار ہوجائے۔ (تفہیم القرآن, مفسر: مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)
QuranSubjects.blogspot.com
~~~~~~~~~
🌹🌹🌹
🔰 Quran Subjects  🔰 قرآن مضامین 🔰
"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]
The messenger said, "My Lord, my people have deserted this Quran." (Quran 25:30)
~~~~~~~~~

مزہبی ‏اختلافات ‏کا ‏فیصلہ ‏اللہ ‏کرے ‏گا ‏، ‏نیکیوں ‏میں ‏سبقت ‏حاصل ‏کرو



مزہبی منافرت اور فرقہ واریت ، دشمن کا ہائیبرڈ وار میں موثر ہتھیار ہے۔ دشمن کے سہولت کار مت بنیں!

اللہ کا حکم یاد رکھیں ۔۔۔۔۔ 
جب اللہ نے فرما دیا کہ اختلافات پر آخری فیصلہ وہ خود کرے گا تو اللہ کے حکم پر سر جھکانے کی بجائیے نافرمانی کیوں؟

جو اختلافات انسانوں نے اپنے جمود، تعصب، ہٹ دھرمی اور ذہن کی اپج سے خود پیدا کرلیے ہیں ان کا آخری فیصلہ نہ مجلس مناظرہ میں ہوسکتا ہے نہ میدان جنگ میں۔

..... فَاسۡتَبِقُوا الۡخَـيۡـرٰتِ‌ؕ اِلَى اللّٰهِ مَرۡجِعُكُمۡ جَمِيۡعًا فَيُنَبِّئُكُمۡ بِمَا كُنۡتُمۡ فِيۡهِ تَخۡتَلِفُوۡنَۙ ۞ (القرآن - سورۃ نمبر 5 المائدة , آیت نمبر 48)
ترجمہ:
.... لہٰذا بھلائیوں میں ایک دُوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔ آخر کار تم سب کو اللہ کی طرف پلٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمہیں اصل حقیقت بتادے گا جس میں تم اختلاف کرتے رہے ہو (قرآن 5:48)

تمام شرائع سے اصل مقصود نیکیوں اور بھلائیوں کو پانا ہے اور وہ اسی طرح حاصل ہو سکتی ہیں کہ جس وقت جو حکم  اللہ ہو اس کی پیروی کی جائے۔ لہٰذا جو لوگ اصل مقصد پر نگاہ رکھتے ہیں ان کے لیے *شرائع کے اختلافات اور مناہج کے فروق پر جھگڑا کرنے کے بجائے صحیح طرز عمل یہ ہے کہ مقصد کی طرف اس راہ سے پیش قدمی کریں جس کو اللہ تعالیٰ کی منظوری حاصل ہو۔

جو اختلافات انسانوں نے اپنے جمود، تعصب، ہٹ دھرمی اور ذہن کی اپج سے خود پیدا کرلیے ہیں ان کا آخری فیصلہ نہ مجلس مناظرہ میں ہوسکتا ہے نہ میدان جنگ میں۔

 آخری فیصلہ اللہ تعالیٰ خود کرے گا جبکہ حقیقت بےنقاب کردی جائے گی اور لوگوں پر منکشف ہوجائے گا کہ جن جھگڑوں میں وہ عمریں کھپا کر دنیا سے آئے ہیں ان کی تہ میں ”حق“ کا جوہر کتنا تھا اور باطل کے حاشیے کی قدر۔
(ماخوز تفہیم القران )
https://salaamone.com/first-step-end-sectarianism/
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
From One of many  Projects of : 
SalaamOne Network
سلام ون نیٹ ورک کا ایک نیا اہم ترین پراجیکٹ 
Dawah, Hybrid, Info War , Social Media 
دعوہ، ہائیبرڈ، انفارمیشن وار، سوشل میڈیا 
By Brig Aftab Khan (r)
Join 4.5 Million beneficiaries via one click by liking this FB Page QuranSubjects, the latest and most important Project!
https://www.facebook.com/102885344575200/posts/237189694478097/
Gateway to the World of SalaamOne Network
Quran Subjects

انفرادی زمہ ‏داری ‏



اللہ کسی متنفّس پر اُس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمّہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا. ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے، اس کا پھل اسی کے لیے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے، اس کا وبال اسی پر ہے

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم 0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَهَا ‌ؕ لَهَا مَا كَسَبَتۡ وَعَلَيۡهَا مَا اكۡتَسَبَتۡ‌ؕ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِيۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا ‌ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحۡمِلۡ عَلَيۡنَاۤ اِصۡرًا كَمَا حَمَلۡتَهٗ عَلَى الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا ‌‌ۚرَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلۡنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ‌ ۚ وَاعۡفُ عَنَّا وَاغۡفِرۡ لَنَا وَارۡحَمۡنَا ۚ اَنۡتَ مَوۡلٰٮنَا فَانۡصُرۡنَا عَلَى الۡقَوۡمِ الۡكٰفِرِيۡنَ  ۞ 
(القرآن - سورۃ نمبر 2 البقرة, آیت نمبر 286)
ترجمہ:
اللہ کسی متنفّس پر اُس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمّہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا. ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے، اس کا پھل اسی کے لیے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے، اس کا وبال اسی پر ہے۔ (ایمان لانے والو! تم یوں دُعا کرو ) *اے ہمارے ربّ ! ہم سے بھول چُوک میں جو قصور ہو جائیں،ان پر گرفت نہ کرنا۔ مالک ! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال ، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے۔ پروردگار !جس بار کو اُٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں ہے ، وہ ہم پر نہ رکھ۔ ہمارے ساتھ نرمی کر ، ہم سے درگزر فرما، ہم پر رحم کر، تُو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر*

یعنی اللہ کے ہاں انسان کی ذمہ داری اس کی مقدرت کے لحاظ سے ہے۔ ایسا ہرگز نہ ہوگا کہ بندہ ایک کام کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو اور اللہ اس سے باز پرس کرے کہ تو نے فلاں کام کیوں نہ کیا۔ یا ایک چیز سے بچنا فی الحقیقت اس کی مقدرت سے باہر ہو اور اللہ اس سے مواخذہ کرے کہ تو نے اس سے پرہیز کیوں نہ کیا۔ 
لیکن یہ یاد رہے کہ اپنی مقدرت کا فیصلہ کرنے والا انسان خود نہیں ہے۔ اس کا فیصلہ اللہ ہی کرسکتا ہے کہ ایک شخص فی الحقیقت کس چیز کی قدرت رکھتا تھا اور کس چیز کی نہ رکھتا تھا۔

 اللہ کے قانون مجازات کا دوسرا قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ ہر آدمی انعام اسی خدمت پر پائے گا۔ جو اس نے خود انجام دی ہو۔ 
یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک شخص کی خدمات پر دوسرا انعام پائے۔ اور اسی طرح ہر شخص اسی قصور میں پکڑا جائے گا جس کا وہ خود مرتکب ہوا ہو۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک کے قصور میں دوسرا پکڑا جائے۔ 

*ہاں یہ ضرور ممکن ہے کہ ایک آدمی نے کسی نیک کام کی بنا رکھی ہو اور دنیا میں ہزاروں سال تک اس کام کے اثرات چلتے رہیں اور یہ سب اس کے کارنامے میں لکھے جائیں۔*
 اور ایک دوسرے شخص نے کسی برائی کی بنیاد رکھی ہو اور صدیوں تک دنیا میں اس کا اثر جاری رہے اور وہ اس ظالم اول کے حساب میں درج ہوتا رہے۔ لیکن یہ اچھا یا برا، جو کچھ بھی پھل ہوگا، اسی کی سعی اور اسی کے کسب کا نتیجہ ہوگا۔
*بہرحال یہ ممکن نہیں ہے کہ جس بھلائی یا جس برائی میں آدمی کی نیت اور سعی و عمل کا کوئی حصہ نہ ہو، اس کی جزا یا سزا اسے مل جائے۔ مکافات عمل کوئی قابل انتقال چیز نہیں ہے۔*
FB - https://www.facebook.com/QuranSubject
https://Quransubjects.wordpress.com/ur

🌹🌹🌹
*"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]*
*کیا یہ لوگ قرآن پر تدبر ّنہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل پڑچکے ہیں[47:24]*
*قرآن کے پیغام کوپھیلانا "جہاد کبیرہ" ہے(25:52)*

یوم ‏حساب



یوم حشر کا مقصد: تاکہ اللہ ہر جان کو اس کا بدلہ دے جو اس نے کمایا۔ بیشک اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم 0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَلَا تَحۡسَبَنَّ اللّٰهَ مُخۡلِفَ وَعۡدِهٖ رُسُلَهٗؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيۡزٌ ذُوۡ انْتِقَامٍؕ ۞ يَوۡمَ تُبَدَّلُ الۡاَرۡضُ غَيۡرَ الۡاَرۡضِ وَالسَّمٰوٰتُ‌ وَبَرَزُوۡا لِلّٰهِ الۡوَاحِدِ الۡقَهَّارِ‏ ۞ وَتَرَى الۡمُجۡرِمِيۡنَ يَوۡمَئِذٍ مُّقَرَّنِيۡنَ فِى الۡاَصۡفَادِ‌ۚ‏ ۞ سَرَابِيۡلُهُمۡ مِّنۡ قَطِرَانٍ وَّتَغۡشٰى وُجُوۡهَهُمُ النَّارُۙ‏ ۞ لِيَجۡزِىَ اللّٰهُ كُلَّ نَفۡسٍ مَّا كَسَبَتۡ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَرِيۡعُ الۡحِسَابِ‏ ۞ هٰذَا بَلٰغٌ لِّـلنَّاسِ وَلِيُنۡذَرُوۡا بِهٖ وَلِيَـعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا هُوَ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ وَّلِيَذَّكَّرَ اُولُوا الۡا َلۡبَابِ ۞
(القرآن - سورۃ نمبر 14 ابراهيم, آیت نمبر 47-52)
ترجمہ:
پس تو ہرگز گمان نہ کر کہ اللہ اپنے رسولوں سے اپنے وعدے کے خلاف کرنے والا ہے۔ یقینا اللہ سب پر غالب، بدلہ لینے والا ہے۔ ۞ جس دن یہ زمین اور زمین سے بدل دی جائے گی اور سب آسمان بھی اور لوگ اللہ کے سامنے پیش ہوں گے، جو اکیلا ہے، بڑا زبردست ہے۔ ۞ *اور تو مجرموں کو اس دن زنجیروں میں ایک دوسرے کے ساتھ جکڑے ہوئے دیکھے گا۔ ۞ ان کی قمیصیں گندھک کی ہوں گی اور ان کے چہروں کو آگ ڈھانپے ہوگی۔ ۞ تاکہ اللہ ہر جان کو اس کا بدلہ دے جو اس نے کمایا۔ بیشک اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے*۔ ۞ یہ لوگوں کے لیے ایک پیغام ہے اور تاکہ انھیں اس کے ساتھ ڈرایا جائے اور تاکہ وہ جان لیں کہ حقیقت یہی ہے کہ وہ ایک ہی معبود ہے اور تاکہ عقلوں والے نصیحت حاصل کریں۔۞

ان آیات اور قرآن کے دوسرے اشارات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت میں زمین و آسمان بالکل نیست و نابود نہیں ہوجائیں گے بلکہ صرف موجودہ نظام طبیعی کو درہم برہم کر ڈالا جائے گا۔ 

اس کے بعد نفخ صور اول اور نفخ صور آخر کے درمیان ایک خاص مدت میں، جسے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، زمین اور آسمانوں کی موجودہ ہیئت بدل دی جائے گی اور ایک دوسرا نظام طبیعت، دوسرے قوانین فطرت کے ساتھ بنادیا جائے گا۔
وہی عالم آخرت ہوگا۔
پھر نفخ صور آخر کے ساتھ ہی تمام وہ انسان جو تخلیق آدم سے لے کر قیامت تک پیدا ہوئے تھے، از سر نو زندہ کیے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے۔ 
*اسی کا نام قرآن کی زبان میں حشر ہے جس کے لغوی معنی سمیٹنے اور اکٹھا کرنے کے ہیں۔*

 *قرآن کے اشارات اور  تصریحات سے یہ بات ثابت ہے کہ حشر اسی زمین پر برپا ہوگا، یہیں عدالت قائم ہوگی، یہیں میزان لگائی جائے گی اور قضیہ زمین برسر زمین ہی چکایا جائے گا۔*

 نیز یہ بھی ثابت ہے کہ ہماری وہ دوسری زندگی جس میں یہ معاملات پیش آئیں گے محض روحانی نہیں ہوگی بلکہ ٹھیک اسی طرح جسم و روح کے ساتھ ہم زندہ کیے جائیں گے جس طرح آج زندہ ہیں، اور ہر شخص ٹھیک اسی شخصیت کے ساتھ وہاں موجود ہوگا جسے لیے ہوئے وہ دنیا سے رخصت ہوا تھا۔ (ماخوز از تفہیم القرآن)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*SalaamOne Network سلام ون نیٹ ورک*
Dawah, Hybrid, Info War , Social Media (Eng/Urdu)
دعوہ، ہائیبرڈ، انفارمیشن وار، سوشل میڈیا 
Enter the Global  "SALAAMONE NETWORK, one way via this FB Page & join 4.5 Million beneficiaries world wide ...
https://www.facebook.com/QuranSubject
https://SalaamOne.com/Quran-subjects
By Brig Aftab Khan (r)

روح صفات الہٰی کا ایک عکس



انسان کے اندر جو روح پھونکی گئی ہے وہ دراصل صفات الہٰی کا ایک عکس یا پرتو ہے

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ 0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَاِذَا سَوَّيۡتُهٗ وَنَفَخۡتُ فِيۡهِ مِنۡ رُّوۡحِىۡ فَقَعُوۡا لَهٗ سٰجِدِيۡنَ ۞ 
(القرآن - سورۃ نمبر 15 الحجر، آیت نمبر 29)
ترجمہ:
جب میں اُسے پُورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اُس کے آگے سجدے میں گِر جانا۔“

اس سے معلوم ہوا کہ انسان کے اندر جو روح پھونکی گئی ہے وہ دراصل صفات الہٰی کا ایک عکس یا پرتو ہے۔ حیات، علم، قدرت، ارادہ، اختیار اور دوسری جتنی صفات انسان میں پائی جاتی ہیں، جن کے مجموعہ کا نام روح ہے، یہ دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی صفات کا ایک ہلکا سا پرتو ہے جو اس کا لبد خاکی پر ڈالا گیا ہے، اور اسی پرتو کی وجہ سے انسان زمین پر خدا کا خلیفہ اور ملائکہ سمیت تمام موجودات ارضی کا مسجود قرار پایا ہے۔
یوں تو ہر صفت جو مخلوقات میں پائی جاتی ہے، اس کا مصدر و منبع اللہ تعالیٰ ہی کی کوئی نہ کوئی صفت ہے۔ جیسا کہ روایت میں آیا ہے کہ جَعَلَ اللہْ الرَّحْمَۃَ مِأَ ۃَ جُزْءٍ فَاَمْسَکَ عِنْدَہ تِسْعَۃً وَّ تِسْعِیْنَ وَاَنْزَلَ فِی الْاَرْضِ جُزْ ءً ا وَّ احِدًا فَمِنْ ذٰلِکَ الْجُزْ ءِ یَتَرَ ا حَمُ الْخَلَا ئِقُ حَتّٰی تَرْفَعُ الدَّآ بَّۃُ حَا فِرَ ھَا عَنْ وَّلَدِھَا خَشْیَۃِ اَنْ تُصِیْبَہ ۔
 ”اللہ تعالیٰ نے رحمت کو سو حصوں میں تقسیم فرمایا، پھر ان میں سے 99 حصے اپنے پاس رکھے اور صرف ایک حصہ زمین میں اتارا۔ یہ اسی ایک حصے کی برکت ہے کہ جس کی وجہ سے مخلوقات آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں یہاں تک کہ اگر جانور اپنے بچے پر سے اپنا کھرا اٹھاتا ہے تاکہ اسے ضرر نہ پہنچ جائے، تو یہ بھی دراصل اسی حصہ رحمت کا اثر ہے“۔ 
*مگر جو چیز انسان کی دوسری مخلوقات پر فضیلت دیتی ہے وہ یہ ہے کہ جس جامعیت کے ساتھ اللہ کی صفات کا پرتو اس پر ڈالا گیا ہے اس سے کوئی دوسری مخلوق سرفراز نہیں کی گئی۔*

*یہ ایک ایسا باریک مضمون ہے جس کے سمجھنے میں ذرا سی غلطی بھی آدمی کر جائے تو اس غلط فہمی میں مبتلا ہوسکتا ہے* کہ صفات الہٰی میں سے ایک حصہ پانا الوہیت کا کوئی جز پالینے کا ہم معنی ہے۔ حالانکہ الوہیت اس سے وراء الوراء ہے کہ کوئی مخلوق اس کا ایک ادنیٰ شائبہ بھی پا سکے۔

فَاِذَا سَوَّيْتُهٗ۔۔ : یعنی جب میں اسے برابر کرلوں، مکمل بنا لوں۔ ”مِنْ رُّوْحِيْ“ اور اس میں اپنی روح سے پھونک دوں۔

*یہاں ”رُّوْحِيْ“ میں ”رُوْحٌ“ کی ”یاء“ کی طرف اضافت، اضافت تشریفی کہلاتی ہے، یعنی اس کا عزو شرف بڑھانے کے لیے اسے اپنی روح قرار دیا، یہاں ”میری روح“ سے مراد اللہ تعالیٰ کی مخلوق روح ہے، کیونکہ اس کی ذات کی مثل تو کوئی چیز نہیں، وہ ”ۚلَمْ يَلِدْ ڏ وَلَمْ يُوْلَدْ“ ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کی ذاتی روح تو کسی صورت مراد نہیں ہوسکتی، صرف آدم ہی نہیں دوسری جگہ ہر انسان کی روح کو اللہ نے اپنی روح قرار دیا ہے،*
 فرمایا : (ثُمَّ سَوّٰىهُ وَنَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ) [ دیکھیے السجدۃ : 7 تا 9 ] اور ظاہر ہے کہ انسان مخلوق ہے، یہ ایسے ہی ہے کہ ساری زمین اور اس کی ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی ہے، مگر مسجد حرام کو بیت اللہ (اللہ کا گھر) اور صالح ؑ کی اونٹنی کو اللہ کی اونٹنی قرار دیا ہے۔
(ماخوز از تفہیم القرآن و تفسیر اقرآن کریم)


-----------
By *SalaamOne Network سلام ون نیٹ ورک*
Dawah, Hybrid, Info War , Social Media (Eng/Urdu)
دعوہ، ہائیبرڈ، انفارمیشن وار، سوشل میڈیا 
Enter the Global  "SALAAMONE NETWORK, one way via this FB Page & join 4.5 Million beneficiaries world wide ..
By Brig Aftab Khan (r)

آیات قرآن کو نظر انداز کرنے والے ، اندھے ، بہرے ، چوپاؤیوں سے بد تر انسان



اور انھیں اس شخص کی خبر پڑھ کر سنا جسے ہم نے اپنی آیات عطا کیں تو وہ ان سے صاف نکل گیا، پھر شیطان نے اسے پیچھے لگا لیا تو وہ گمراہوں میں سے ہوگیا۔
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الۡاٰيٰتِ وَلَعَلَّهُمۡ يَرۡجِعُوۡنَ ۞ وَاتۡلُ عَلَيۡهِمۡ نَبَاَ الَّذِىۡۤ اٰتَيۡنٰهُ اٰيٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنۡهَا فَاَتۡبَعَهُ الشَّيۡطٰنُ فَكَانَ مِنَ الۡغٰوِيۡنَ‏ ۞ وَلَوۡ شِئۡنَا لَرَفَعۡنٰهُ بِهَا وَلٰـكِنَّهٗۤ اَخۡلَدَ اِلَى الۡاَرۡضِ وَاتَّبَعَ هَوٰٮهُ‌ ۚ فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ الۡـكَلۡبِ‌ ۚ اِنۡ تَحۡمِلۡ عَلَيۡهِ يَلۡهَثۡ اَوۡ تَتۡرُكۡهُ يَلۡهَث ‌ؕ ذٰ لِكَ مَثَلُ الۡقَوۡمِ الَّذِيۡنَ كَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِنَا‌ ۚ فَاقۡصُصِ الۡقَصَصَ لَعَلَّهُمۡ يَتَفَكَّرُوۡنَ ۞ سَآءَ مَثَلَاْ ۨالۡقَوۡمُ الَّذِيۡنَ كَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِنَا وَاَنۡفُسَهُمۡ كَانُوۡا يَظۡلِمُوۡنَ ۞ مَنۡ يَّهۡدِ اللّٰهُ فَهُوَ الۡمُهۡتَدِىۡ‌ۚ وَمَنۡ يُّضۡلِلۡ فَاُولٰۤئِكَ هُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ ۞ وَلَـقَدۡ ذَرَاۡنَا لِجَـهَنَّمَ كَثِيۡرًا مِّنَ الۡجِنِّ وَالۡاِنۡسِ‌ ‌ۖ  لَهُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا يَفۡقَهُوۡنَ بِهَا  وَلَهُمۡ اَعۡيُنٌ لَّا يُبۡصِرُوۡنَ بِهَا  وَلَهُمۡ اٰذَانٌ لَّا يَسۡمَعُوۡنَ بِهَا ؕ اُولٰۤئِكَ كَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ هُمۡ اَضَلُّ‌ ؕ اُولٰۤئِكَ هُمُ الۡغٰفِلُوۡنَ ۞
(القرآن - سورۃ نمبر 7 الأعراف ، آیت نمبر 174-179)
ترجمہ: 
اور اسی طرح ہم آیات کو کھول کر بیان کرتے ہیں اور تاکہ وہ پلٹ آئیں۔ ۞ اور انھیں اس شخص کی خبر پڑھ کر سنا جسے ہم نے اپنی آیات عطا کیں تو وہ ان سے صاف نکل گیا، پھر شیطان نے اسے پیچھے لگا لیا تو وہ گمراہوں میں سے ہوگیا۔ ۞
 اور اگر ہم چاہتے تو اسے ان کے ذریعے بلند کردیتے، مگر وہ زمین کی طرف چمٹ گیا اور اپنی خواہش کے پیچھے لگ گیا، تو اس کی مثال کتے کی مثال کی طرح ہے کہ اگر تو اس پر حملہ کرے تو زبان نکالے ہانپتا ہے، یا اسے چھوڑ دے تو بھی زبان نکالے ہانپتا ہے، یہ ان لوگوں کی مثال ہے جنھوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا۔ سو تو یہ بیان سنا دے، تاکہ وہ غور و فکر کریں۔ ۞برے ہیں وہ لوگ مثال کی رو سے جنھوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور اپنی ہی جانوں پر ظلم کرتے رہے۔ ۞ 
جسے اللہ ہدایت دے سو وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے وہ گمراہ کر دے سو وہی خسارہ اٹھانے والے ہیں۔ ۞ 
اور بلاشبہ یقینا ہم نے بہت سے جن اور انسان جہنم ہی کے لیے پیدا کیے ہیں، ان کے دل ہیں جن کے ساتھ وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن کے ساتھ وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن کے ساتھ وہ سنتے نہیں، یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں، بلکہ یہ زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں، یہی ہیں جو بالکل بیخبر ہیں۔ ۞
(القرآن - سورۃ نمبر 7 الأعراف, آیت نمبر 174-179)

اللہ اور رسول (صلعم) کی اطاعت

اِنَّمَا كَانَ قَوۡلَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اِذَا دُعُوۡۤا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ لِيَحۡكُمَ بَيۡنَهُمۡ اَنۡ يَّقُوۡلُوۡا سَمِعۡنَا وَاَطَعۡنَا‌ؕ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ۞ (24:51)
ترجمہ:
ایمان والوں کی بات، جب وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلائے جائیں، تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے، اس کے سوا نہیں ہوتی کہ وہ کہتے ہیں ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
........
 🌹🌹🌹
🔰 *Quran Subjects*  🔰 *قرآن مضامین* 🔰

*"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]*
*کیا یہ لوگ قرآن پر تدبر ّنہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل پڑچکے ہیں[47:24]*
*قرآن کے پیغام کوپھیلانا "جہاد کبیرہ" ہے(25:52)*
🤷🏻‍♂️
*FB* - https://www.facebook.com/QuranSubject
*English*- https://QuranSubjects.wordpress.com  
*Urdu*- https://Quransubjects.blogspot.com

جاہلوں سے فضول بحث مباحثہ کی بجائے کنارہ کشی کا حکم ‏




خُذِ الۡعَفۡوَ وَاۡمُرۡ بِالۡعُرۡفِ وَاَعۡرِضۡ عَنِ الۡجٰهِلِيۡنَ ۞ 
(القرآن - سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 199)
ترجمہ:
عفو اختیار کرو اور نیک کام کرنے کا حکم دو اور جاہلوں سے کنارہ کرلو

وَعِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِيۡنَ يَمۡشُوۡنَ عَلَى الۡاَرۡضِ هَوۡنًا وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الۡجٰهِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا ۞ (القرآن - سورۃ نمبر 25 الفرقان، آیت نمبر 63)
ترجمہ:
اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں.

وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغۡوَ اَعۡرَضُوۡا عَنۡهُ وَقَالُوۡا لَنَاۤ اَعۡمَالُنَا وَلَـكُمۡ اَعۡمَالُـكُمۡ سَلٰمٌ عَلَيۡكُمۡ لَا نَبۡتَغِى الۡجٰهِلِيۡنَ ۞ (القرآن - سورۃ نمبر 28 القصص، آیت نمبر 55)
ترجمہ:
اور جب بیہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم کو ہمارے اعمال اور تم کو تمہارے اعمال۔ تم کو سلام۔ ہم جاہلوں کے خواستگار نہیں ہیں.

🌹🌹🌹
🔰 *Quran Subjects*  🔰 *قرآن مضامین* 🔰

*"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]*
*کیا یہ لوگ قرآن پر تدبر ّنہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل پڑچکے ہیں[47:24]*
*قرآن کے پیغام کوپھیلانا "جہاد کبیرہ" ہے(25:52)*
🤷🏻‍♂️
*FB* - https://www.facebook.com/QuranSubject
*English*- https://QuranSubjects.wordpress.com  
*Urdu*- https://Quransubjects.blogspot.com 
Strive Corruption: https://TCPwebs.wordpress.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*A Project of "SalaamOne Network" 🔰 سلام ون نیٹ ورک*
4.5 Million beneficiaries world wide and counting .....
Dawah, information, Knowkedge, Social Media (Eng/Urdu  (دعوہ، انفارمیشن، علم، سوشل میڈیا)
https://SalaamOne.com/about
By Brig Aftab Khan (r)
#Quran #Islam #Muslims

Popular Books