Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

روح صفات الہٰی کا ایک عکس



انسان کے اندر جو روح پھونکی گئی ہے وہ دراصل صفات الہٰی کا ایک عکس یا پرتو ہے

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ 0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَاِذَا سَوَّيۡتُهٗ وَنَفَخۡتُ فِيۡهِ مِنۡ رُّوۡحِىۡ فَقَعُوۡا لَهٗ سٰجِدِيۡنَ ۞ 
(القرآن - سورۃ نمبر 15 الحجر، آیت نمبر 29)
ترجمہ:
جب میں اُسے پُورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اُس کے آگے سجدے میں گِر جانا۔“

اس سے معلوم ہوا کہ انسان کے اندر جو روح پھونکی گئی ہے وہ دراصل صفات الہٰی کا ایک عکس یا پرتو ہے۔ حیات، علم، قدرت، ارادہ، اختیار اور دوسری جتنی صفات انسان میں پائی جاتی ہیں، جن کے مجموعہ کا نام روح ہے، یہ دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی صفات کا ایک ہلکا سا پرتو ہے جو اس کا لبد خاکی پر ڈالا گیا ہے، اور اسی پرتو کی وجہ سے انسان زمین پر خدا کا خلیفہ اور ملائکہ سمیت تمام موجودات ارضی کا مسجود قرار پایا ہے۔
یوں تو ہر صفت جو مخلوقات میں پائی جاتی ہے، اس کا مصدر و منبع اللہ تعالیٰ ہی کی کوئی نہ کوئی صفت ہے۔ جیسا کہ روایت میں آیا ہے کہ جَعَلَ اللہْ الرَّحْمَۃَ مِأَ ۃَ جُزْءٍ فَاَمْسَکَ عِنْدَہ تِسْعَۃً وَّ تِسْعِیْنَ وَاَنْزَلَ فِی الْاَرْضِ جُزْ ءً ا وَّ احِدًا فَمِنْ ذٰلِکَ الْجُزْ ءِ یَتَرَ ا حَمُ الْخَلَا ئِقُ حَتّٰی تَرْفَعُ الدَّآ بَّۃُ حَا فِرَ ھَا عَنْ وَّلَدِھَا خَشْیَۃِ اَنْ تُصِیْبَہ ۔
 ”اللہ تعالیٰ نے رحمت کو سو حصوں میں تقسیم فرمایا، پھر ان میں سے 99 حصے اپنے پاس رکھے اور صرف ایک حصہ زمین میں اتارا۔ یہ اسی ایک حصے کی برکت ہے کہ جس کی وجہ سے مخلوقات آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں یہاں تک کہ اگر جانور اپنے بچے پر سے اپنا کھرا اٹھاتا ہے تاکہ اسے ضرر نہ پہنچ جائے، تو یہ بھی دراصل اسی حصہ رحمت کا اثر ہے“۔ 
*مگر جو چیز انسان کی دوسری مخلوقات پر فضیلت دیتی ہے وہ یہ ہے کہ جس جامعیت کے ساتھ اللہ کی صفات کا پرتو اس پر ڈالا گیا ہے اس سے کوئی دوسری مخلوق سرفراز نہیں کی گئی۔*

*یہ ایک ایسا باریک مضمون ہے جس کے سمجھنے میں ذرا سی غلطی بھی آدمی کر جائے تو اس غلط فہمی میں مبتلا ہوسکتا ہے* کہ صفات الہٰی میں سے ایک حصہ پانا الوہیت کا کوئی جز پالینے کا ہم معنی ہے۔ حالانکہ الوہیت اس سے وراء الوراء ہے کہ کوئی مخلوق اس کا ایک ادنیٰ شائبہ بھی پا سکے۔

فَاِذَا سَوَّيْتُهٗ۔۔ : یعنی جب میں اسے برابر کرلوں، مکمل بنا لوں۔ ”مِنْ رُّوْحِيْ“ اور اس میں اپنی روح سے پھونک دوں۔

*یہاں ”رُّوْحِيْ“ میں ”رُوْحٌ“ کی ”یاء“ کی طرف اضافت، اضافت تشریفی کہلاتی ہے، یعنی اس کا عزو شرف بڑھانے کے لیے اسے اپنی روح قرار دیا، یہاں ”میری روح“ سے مراد اللہ تعالیٰ کی مخلوق روح ہے، کیونکہ اس کی ذات کی مثل تو کوئی چیز نہیں، وہ ”ۚلَمْ يَلِدْ ڏ وَلَمْ يُوْلَدْ“ ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کی ذاتی روح تو کسی صورت مراد نہیں ہوسکتی، صرف آدم ہی نہیں دوسری جگہ ہر انسان کی روح کو اللہ نے اپنی روح قرار دیا ہے،*
 فرمایا : (ثُمَّ سَوّٰىهُ وَنَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ) [ دیکھیے السجدۃ : 7 تا 9 ] اور ظاہر ہے کہ انسان مخلوق ہے، یہ ایسے ہی ہے کہ ساری زمین اور اس کی ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی ہے، مگر مسجد حرام کو بیت اللہ (اللہ کا گھر) اور صالح ؑ کی اونٹنی کو اللہ کی اونٹنی قرار دیا ہے۔
(ماخوز از تفہیم القرآن و تفسیر اقرآن کریم)


-----------
By *SalaamOne Network سلام ون نیٹ ورک*
Dawah, Hybrid, Info War , Social Media (Eng/Urdu)
دعوہ، ہائیبرڈ، انفارمیشن وار، سوشل میڈیا 
Enter the Global  "SALAAMONE NETWORK, one way via this FB Page & join 4.5 Million beneficiaries world wide ..
By Brig Aftab Khan (r)

Popular Books